تراویح پر اجرت لینا

سوال :تراویح پہ اجرت لینا کیسا ہے؟

الجواب باسم ملهم الصواب:

تراویح میں قرآن مجید سناکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا،دونوں جائز نہیں، لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے اور ثواب بھی نہیں ملے گا۔

حوالہ جات

1)”فالحاصل: أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال، فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر!! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنا لله وإنا إليه راجعون!!

(فتاوي شاميه:56/6)

2)تراویح میں قرآنِ مجید سناکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا۔

البتہ اگر حافظ کو رمضان المبارک کے لیے نائب امام بنادیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں سپرد کردی جائیں اور اس خدمت کے عوض تنخواہ کے عنوان سے اسے کچھ دے دیا جائے (خواہ وہ زیاہ ہو یا کم) تو اس کے لینے اور دینے کی گنجائش ہوگی ۔اسی طرح اگر بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہو اور نہ وہاں بطورِ اجرت لینے دینے کا عرف ورواج ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدِجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔

اور اگر تراویح سنانے والا اس مسجد کا ہی امام ہو اور انتظامیہ/کمیٹی رمضان المبارک میں الاؤنس یا اضافی مشاہرے کی صورت میں امام کا تعاون کردے تو یہ تراویح کی اجرت میں داخل نہیں ہوگا۔

( کفایت المفتي 398,410/3)

3)بلا تعین دے دیا جائے اور نہ دینے میں کوئی شکایت نہ ہو تو یہ صورت اجرت سے خارج اور حد جواز میں داخل ہوسکتی ہے۔

(کفایت المفتی:4/620).

4) اجرت پر تراویح پڑھانے کے لیے کسی حافظ سے معاملہ کرنا قطعا نا جائز ہے ۔اگر بغیر اجرت کے حافظ نہ ملتا ہو تو الم تر کیف ۔۔۔الخ سے تراویح پڑھی جائے ۔اگر اجرت کے بغیر کسی حافظ نے تراویح پڑھائی اور کوئی شخص اپنی خوشی سے بطور ہدیہ اس کو پیش کرے تو اس کا لینا دینا جائز ہے۔

(فتاوی عثمانی:1/460)

واللہ اعلم بالصواب

6 دسمبر 2021

1ربیع الثانی 1443

اپنا تبصرہ بھیجیں