اس سورت کی ابتدا میں اللہ نےقلم کی قسم کھائی ہے اس لئے اسے سورۂ قلم کہاجاتا ہے،یہ قلم کی عظمت ا ورا س کے عظیم نعمت ہونے کو ظاہر کرتی ہے،حدیث میں بھی قلم کی عظمت کو بیان کیاگیا ہے،سورۂ قلم میں تین مضامین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے:
(۱)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر ومنزلت اور آپ کے اخلاق ومناقب کا بیان ہے ،سب سے پہلے تو قسم کھاکر فرمایاگیا کہ آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ،جیسا کے آپ کے مخالفین کہتے ہیں ،اور آپ کے لئے بے انتہا اجر ہے اور آپ کے اخلاق عظیم ہیں،مسلم ،ابو داؤد او رنسائی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کا خلق قرآن ہے،اس سورت میں آپ کے اخلاق ومناقب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے مخالفین کی اخلاقی پستی اور کج فکری بھی بیان کی گئی ہے۔
(۲)دوسرا مضمون جسے اس سورت میں خصوصی اہمیت حاصل ہے ،وہ اصحاب الجنہ(باغ والوں کا قصہ ہے)یہ قصہ عربوں میں بہت مشہور تھا ،یہ باغ یمن کے قریب ہی تھا ،اس کا مالک اس کی پیداوار میں سے غرباء پر بھی خرچ کیا کرتا تھا،لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس باغ کی وارث بنی تو انہوں نے اپنے اخراجات او رمجبوریوں کا بہانہ بناکر مساکین کو محروم رکھنےاور ساری پیداوار سمیٹ کر گھر لے جانے کی منصوبہ بندی کی ،اللہ نے اس باغ کو تباہ کردیا،اس قصہ میں ان لوگوں کے لئے عبرت کا بڑا سامان ہے، جو اپنی ثروت اور غناء سے اکیلے ہی مستفید ہونا چاہتے ہیں، اور ان کا بخل یہ برداشت نہیں کرتا کہ اس کے مال ومتاع سے کسی او رکو بھی فائدہ پہنچے ،کفار کے لئے عبرت آموز مثال بیان کرنے کے بعد یہ سورت متقین کا انجام بھی بتاتی ہے، اور سوا ل کرتی ہے کہ محسن اور مجرم ،فرمانبردار اورنافرمان ،باغی اور وفادار دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں۔
(۳)تیسرا اہم مضمون جو سورۂ قلم بیان کرتی ہے وہ آخرت کے بارے میں ہے ،فرمایاگیا کہ جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے،کشف ساق یعنی پنڈلی کھولے جانے سے علماء نے قیامت کے شدائد اور ہولناکیاں مراد لی ہیں ،آخر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کی ایذاؤں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے۔
(ماخوذ خلاصہ قرآن