تعارف سورۃ الروم

اس سورت کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی سچائی اور حقانیت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کرتا ہے ، جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی اس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں ،ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی، او راس کے ہر بادشاہ کو کسری کہاجاتا تھا، یہ لوگ آتش پرست تھے ،یعنی آگ کو پوجتے تھے، دوسری بڑی طاقت روم کی تھی ،جو مکہ مکرمہ کے شمال او رمغرب میں پھیلی ہوئی تھی، شام، مصر، ایشیائے کوچک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے،اوراس کے ہر بادشاہ کو قیصر کہاجاتا تھا، او ران کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی،جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہورہی تھی،او راس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا، اوراس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے بڑے بڑے شہر فتح کرلئے تھے ،یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کرکے رومیوں کو مسلسل پیچھے ڈھکیلتی جارہی تھی ،اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہورہا تھا،ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی اس لئے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں ،اورجب کبھی اریان کی کسی فتح کی خبر آتی تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اس پر نہ صرف خوشی مناتے بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں مسلسل شکست کھاتے جارہے ہیں،او رایران کے لوگ جو ہماری طرح پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے ،انہیں برابر فتح نصیب ہورہی ہے،اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی ،اور اس کے بالکل شروع میں یہ پیشینگوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھاگئے ہیں ،لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کرکے ایرانیوں پر غالب آجائیں گے ،اوراس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے،اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک و قت دو پیشنگوئیاں کی گئیں ،ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھاگئے ہیں وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اوردوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہیں اس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے ،یہ دونوں پیشینگوئیاں اس وقت کے ماحول میں اتنی بعید از قیاس تھیں کہ کوئی شخص جو اس وقت کے حالات سے واقف ہو ایسی پیشینگوئی نہیں کرسکتا تھا،مسلمان اس وقت جس طرح کافروں کے ظلم وستم میں دبے او رپسے ہوئے تھے، ا س کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں ،دوسری طرف سلطنت روما کا حال بھی یہ تھا کہ اس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا تھا ،چنانچہ سلطنت روما کا مشہور مؤرخ ایڈروڈ گبن اس پیشینگوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :جس وقت مبینہ طور پر یہ پیشینگوئی کی گئی اس وقت کسی بھی پیشینگوئی کا پورا ہونا اس سےزیادہ بعید نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے کہ قیصر ہرقل کی حکومت کے پہلے بارہ سالوں میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ رومی سلطنت کا خاتمہ بالکل قریب آچکا ہے:

اپنا تبصرہ بھیجیں