تعویذ پہننا

فتویٰ نمبر:4085

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

مجھے یہ پوچھنا تھا کہ کیا ہر طرح کا تعویز لٹکانا شرک ہے؟ اگر کوئی مستند عالم ہمیں کوئی تعویذ دے پہننے کے لیے تو پھر اس کا کیا حکم ہے؟

والسلام

الجواب حامدا ومصلیا

لکھے ہوئے تعویذ کو گلے میں لٹکانا درست ہے، کوئی حرج کی بات نہیں، البتہ چند شرائط کی رعایت رکھنی ضروری ہے:

1) تعویذ آیات قرآنی،اسمائے الہی یا ادعیہ ماثورہ پر مشتمل ہو۔ 

2) یہ عقیدہ ہو کہ اس تعویذ کی حیثیت محض دوا کی ہے اصل شفاء دینے والی اللہ ہی کی ذات ہے۔

3) عربی زبان یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو جس کے معنی معلوم سمجھے جاسکتے ہوں۔

4) تعویذ جائز مقصد کے لیے کیا جائے، ناجائز مقاصد کے لیے نہیں ۔

ان شرائط کے ساتھ تعویذ کسی کاغذ پر لکھ کر اس کو باندھنا یا لٹکانا جائز ہے۔

جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے، جیسا کہ امام سیوطی کی جامع صغیر میں ہے: من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۶/۱۸۱) تو یہ اس صورت پر محمول ہیں جب تعویذ کو ہی نفع نقصان میں موثر حقیقی سمجھا جائے، جیسا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے یا ان سے مراد ایسے تعویذات ہیں جن میں الفاظ شرکیہ یا ایسے ہوں جن کے معنی معلوم نہ ہوں، ان حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)

” و ننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃللمومنین۔”

{الاسراء :۸۲}

” وأخرج البیہقي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضي اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․”

{ دلائل النبوة: ۷/۱۱۸}

” وقال ابن حجر: وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی “۔

{فتح الباري: ۵۷۳۵}

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:۲۰ جمادی الاول ۱۴۴۰

عیسوی تاریخ:۲۶ جنوری ۲۰۱۹

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں