تحویل قبلہ کے متعلق تطبیق

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته.

سوال: مجھے اس چیز کے بارے میں تھوڑی سی کنفیوژن ہے اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں. ہم نے ایک جگہ پڑھا کے دوران نماز اگر کوئی باہر سے نمازی کو کوئی لقمہ دے یا اس کو یہ تنبیہ کرے کہ تم نے صرف ایک سجدہ کیا ہے دوسرا بھی کرلو اور نمازی باہر کی ہدایت کو قبول کر لے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے. لیکن دوسری جگہ ہم نے پڑھا کہ جب تحویل قبلہ کا حکم آیا تھا تو خارج الصلاۃ شخص نے قبلہ بدلنے کا حکم دیا تھا۔ تو یہ حکم بھی تو باہر والوں نے دیا تھا تو پھر کسی کی نماز نہیں ٹوٹی۔ تو ہم ان دونوں حکم میں کس طرح تطبیق دیں؟

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب باسم ملهم الصواب
قبلہ والے مسئلہ میں یہ تطبیق کی جائے گی کہ اگر کوئی خارج صلاة أدمی کی بات بغیر سوچے سمجھے قبول کر لے محض اس کے کہنے پر تو نماز ٹوٹ جائے گی ،مگر فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر خارج صلاة شخص کوئی مسئلہ بتائے اور مصلی آدمی اپنے ذہن سے سوچ سجھ کر فیصلہ کرے تو پھر آدمی کا یہ عمل اپنی طرف منسوب ہو جاتا ہے اور خارج صلاة آدمی کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور اس صورت میں نماز نہیں ٹوٹتی۔
حوالہ جات:
1۔’’سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ۔۔ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ ۔۔قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ۔
(سورة البقرة : 142 – 144)
ترجمہ: عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا ؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے۔ اور اسی طرح (اے مسلمانو ! ) ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو اور ہم نے آپ کے لیے پہلا قبلہ (بیت المقدس) صرف اس لیے بنایا تھا کہ ہمیں معلوم ہو کہ کون ہے جو رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھرجاتا ہے۔ یہ قبلہ کی تبدیلی ایک مشکل سی بات تھی مگر ان لوگوں کے لیے (چنداں مشکل نہیں) جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ وہ تو لوگوں کے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔۔ ہم تمہارے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور جہاں کہیں بھی تم لوگ ہو، اپنا رخ اسی کی طرف پھیرلیا کرو۔ اور جن لوگوں کو کتاب (تورات) دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا یہ حکم ان کے رب کی طرف سے ہے اور بالکل درست ہے۔ (اس کے باوجود) جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے بے خبر نہیں۔

2: فِي حَدِيث ثويلة بنت أسلم عِنْد بن أَبِي حَاتِمٍ وَقَدْ ذَكَرْتُ بَعْضَهُ قَرِيبًا وَقَالَتْ فِيهِ فَتَحَوَّلَ النِّسَاءُ مَكَانَ الرِّجَالِ وَالرِّجَالُ مَكَانَ النِّسَاء فَصَلَّيْنَا السَّجْدَتَيْنِ الْبَاقِيَتَيْنِ إِلَى الْبَيْتِ الْحَرَامِ قُلْتُ وَتَصْوِيرُهُ أَنَّ الْإِمَامَ تَحَوَّلَ مِنْ مَكَانِهِ فِي مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ إِلَى مُؤَخَّرِ الْمَسْجِدِ لِأَنَّ مَنِ اسْتَقْبَلَ الْكَعْبَةَ اسْتَدْبَرَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ وَهُوَ لَوْ دَارَ كَمَا هُوَ فِي مَكَانِهِ لَمْ يَكُنْ خَلْفَهُ مَكَانٌ يَسَعُ الصُّفُوفِ وَلَمَّا تَحَوَّلَ الْإِمَامُ تَحَوَّلَتِ الرِّجَالُ حَتَّى صَارُوا خَلْفَهُ وَتَحَوَّلَتِ النِّسَاءُ حَتَّى صِرْنَ خَلْفَ الرِّجَالِ وَهَذَا يَسْتَدْعِي عَمَلًا كَثِيرًا فِي الصَّلَاةِ فَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ وَقَعَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْعَمَلِ الْكَثِيرِ كَمَا كَانَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ اغْتُفِرَ الْعَمَلُ الْمَذْكُورُ مِنْ أَجْلِ الْمَصْلَحَةِ الْمَذْكُورَةِ أَوْ لَمْ تَتَوَالَ الْخُطَا عِنْدَ التَّحْوِيلِ بَلْ وَقَعَتْ مُفَرَّقَةً۔٠
(الصحيح البخاری: رقم الحدیث::403)
ترجمہ :
”تحویل قبلہ کی کیفیت ثویلہ بنت اسلم رضی اللہ عنہا نے بیان کی ہے جو کہ ابن ابی حاتم میں موجود ہے، انہوں نے اس کی قدرے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ”خواتین مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد خواتین کی جگہ آ گئے، اس طرح ہم نے باقی دو رکعتیں بیت اللہ کی جانب رخ کر کے ادا کیں“
خلاصہ حدیث:
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: اس منظر کی تصویر کشی اس انداز سے کرنا کہ امام مسجد کے آگے والے حصے سے پچھلے حصے میں چلے جائیں ؛ کیونکہ قبلہ رخ ہونے پر بیت المقدس کی جانب پیٹھ ہوتی ہے اور اگر امام اپنی جگہ پر کھڑا کھڑا ہی گھوم جائے تو اس کے پیچھے کوئی صف باقی بچتی ہی نہیں ، چنانچہ جب امام صاحب نے جگہ تبدیل کی تو مردوں نے بھی گھوم کر امام صاحب کے پیچھے صف بنائی، اور خواتین نے اپنی جگہ تبدیل کر کے مردوں کے پیچھے نماز کیلیے صف بنائی۔
ان سارے مراحل کیلیے دورانِ نماز زیادہ حرکت ہے، تو اس کے بارے میں احتمال ہے کہ یہ نماز میں زیادہ حرکت کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہو ، کیونکہ یہ یقینی ہے کہ یہ واقعہ نماز میں بات کرنے کی حرمت سے پہلے کا ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ مصلحت کی بنا پر مذکورہ بہت زیادہ حرکت کو معاف کر دیا گیا، یا پھر تحویل قبلہ کیلیےیہ کہا جائے کہ دورانِ نماز مسلسل قدم نہیں اٹھائے گئے بلکہ وقفے وقفے سے قدم اٹھائے گئے تھے۔
(شرح الحدیث،فتح الباری : 1 / 507 _506)

3۔عن عبد الله قال: صلى النبي صلى الله عليه وسلم: الظهر خمسا، فقالوا: أزيد في الصلاة؟ قال: «وما ذاك» قالوا: صليت خمسا ، فثنى رجليه وسجد سجدتين.
(الصحيح البخاری:: 404)
ترجمہ :حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھائیں،صحابہ نے عرض کیا:کیا نماز میں اضافہ ہوگیا؟آپ نے پوچھا:کیا بات ہے؟یعنی یہ بات کیوں کہہ رہے ہو؟صحابہ نے کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھائیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور دو سجدے (سہو کے لیے) کئے۔

4۔أن النبي صلى الله عليه وسلم كان أول ما قدم المدينة نزل على أجداده أو قال أخواله من الأنصار ، وأنه صلى قبل بيت المقدس ستة عشر شهرًا أو سبعة عشر شهرًا ، وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت ، وأنه صلى أول صلاة صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم، فخرج رجل ممن صلى معه فمر على أهل مسجد وهم راكعون فقال : أشهد بالله لقد صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل مكة ، فداروا كما هم قبل البيت ، وكانت اليهود قد أعجبهم إذ كان يصلي قبل بيت المقدس وأهل الكتاب ، فلما ولى وجهه قبل البيت أنكروا ذلك۔
(الصحيح البخاری :: رقم الحدیث : 40)
ترجمہ ::
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ننھیال میں اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی،اور آپ کو یہ بات پسند تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبلہ کعبہ شریف ہو۔اور پہلی نماز جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف کی طرف بڑھی عصر کی نماز تھی،اور آپ کے ساتھ ایک جماعت نے نماز پڑھی۔پس ایک شخص آپ کے ساتھ عصر پڑھ کر نکلا اور وہ ایک مسجد پر سے گزرا۔درانحال یہ تھا کہ وہ رکوع میں تھے ۔(اور ان کا رخ مسجد اقصیٰ کی طرف تھا)۔ اس نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کعبہ شریف کی طرف نماز پڑھی ہے۔پس وہ نماز ہی میں کعبہ شریف کی طرف گھوم گئے گئے۔اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھا کرتے تھے تو یہود اور دیگر اہل کتاب خوش تھے۔پھر جب تحویل قبلہ کا حکم آگیا اور آپ بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے لگے تو ان کو برا لگا۔

5۔ اگر تحری سے نماز پڑھ رہا تھا اور نماز کے درمیان تحری بدل گئی یا کسی نے خبر دی یا کسی اور طریقے سے خطا ظاہر ہوئی یا ٹرین گھوم گئی تو فورا صحیح قبلہ کی طرف گھوم جانا ضروری ہے۔نماز ہوجائے گی اور یہ مسئلہ بھی حدیث سے لیا گیا ہے۔
(تحفة الباری : مسئلہ ماخوذ : حدیث # 40۔۔ 266/1)

واللہ سبحانہ اعلم

10 شعبان 1444ھ
2 مارچ، 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں