تو دل میں توآتا ہے سمجھ میں نہیں آتا

(پہلی قسط )

مفتی محمد انس عبدالرحیم

ارشاد باری ہے  ” أَفِي اللَّهِ شَكٌّ  ( ابراہیم  10 ب 13)  یعنی کیا اللہ کے جود میں بھی شک ہے ؟ عقیدہ وجود باری ، تمام مذاہب میں ایک بنیادی مسئلہ رہاہے دنیا کی ہر قوم ایک ایسی ہستی کے وجود پر یقین  رکھتی ہے جواس کائنات کو اتنے نظم ونسق اور شان وشوکت  سے چلارہی ہے گویا روئے زمین کے تمام ادیان وملل اس عقیدہ پر اتفاق کرچکے ہیں  ( سوائے  چند لوگوں کے جن کی فطرتیں  مسخ ہوچکی ہیں ) قرآن کریم میں توحید  کاتوجگہ جگہ ذکر ملتا ہے لیکن وجود باری، کے مسئلہ کا شاذ ونادر  مواقع  پر ذکر ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اس مسئلہ کو یہود ونصاری ٰ ومجوس سب ہی مانتے ہیں بحیثیت مسلمان ہم بھی کاحل یقین سے اسے مانتے ہیں اگر ہم اس عقیدے کے منکر ہوتے تونہ توحید ورسالت  کی بات  کرتے نہ کسی اور چیز کی ۔ایک وقت تھاجب صرف دھریہ مذہب کومنکرخدا کے نام سےجاناجاتاتھالیکن پھر  علمائےا سلام نےا س جھوٹی  سی جماعت کے بطلان  کوواضح کیا لیکن آج  کےا س دور میں جبکہ ایک طرف  مادی ترقی افزون  تر ہے نت نئے  انکشافات  اور محیرا لعقول ایجادات  کی بھرمار ہے حضرت انسان نے چاند اور مریخ پر کمندیں ڈال دی ہیں ۔ا ور دوسری طرف الحاد وزندقہ کا دور دورہ ہے خداکی ہستی کوفراموش کیاجارہاہے ، مادی ترقی اوراخلاقی زوالتاریخ انسانی میں لازم ملزوم رہے ہیں انسان اخلاقی اعتبار سے ابھی  انتہائی پستی کی طرف رواں ہےا یسے دور میں منکرین خداتعالیٰ کی تردید کی زیادہ ضرورت ہے ۔

ایک یورپین تحقیق کے مطابق کالج  میں پڑھنے والے 34 فیصد  طلبہ منکر خدا ہوجاتے ہیں ہمارے اسلامی ممالک میں ایسی نوجوان نسل کی کمی  نہیں جنہیں ان کے والدین اعلیٰ تعلیم کے خیال سے لندن اور امریکہ بھیجتے ہیں لیکن کچے ذہن کے یہ طلبہ وہاں سے ملحدانہ ، دھریانہ  عقائد  کے حامل بن کر لوٹتے ہیں رفتہ رفتہ مسلم ممالک کا مغربی تعلیم یافتہ طبقہ بھی خدا اور دین ومذہب  کی قید بندیوں سے نکلتا نظر آرہاہے، مادی  ترقی تو عروج پر ہے پر باطنی ترقی کا کسی کوخیال نہیں ، سائنس ٹیکنالوجی اور اسباب کوخالق کا درجہ دے کر حقیقی سبب کو بھلا بیٹھے ہیں اسی کو علامہ اقبال ؒ نے کہا ۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

ایسے نازک حالات  میں ہمارافرض بنتا ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ کہیں کائنات کومنصہ مشہور پر لانیوالی ہستی  پر ہمارا  ایمان تو متزلزل نہیں ہورہاہے؟  اورا س عقیدہ  پرا ستحکام اس وقت پیدا ہوگا۔جب ہم کائنات میں دریعت  کردہ قدرت کی ان گنت نشانیوں میں غور کریں گے آثار سے موثر تک پہنچیں گے مخلوق سے خالق کوپہچانیں گے اور یہی قرآن کابھی طرز استدلال ہےا ور اسی کا ہمیں حکم دیاگیاہے۔قرآن  میں ہے  إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿١٦٤﴾ سورۃ البقرہ  پ 2

اس آیت میں مندرجہ ذیل  چیزوں میں غور  کرنے کی تلقین ہے آسمان ،ز مین ، دن رات  کے اختلاف ، کشتی اور سمندر  ، بارش ، حیوانات ،ہوااور بادل  علامہ سید محمودآلوسی  بغدادی  ( متوفی  170ھ اس آیت کے تحت ایک حدیث نقل فرماتے ہیں ،  ویل لمن قراھاولم یتفکر فیھا ( روح المعانی  2/33) یعنی ہلاکت  ہوا س شخص کے لیے جس نے اس آیت  کو پڑھا اور پھر ا س میں غور نہیں کیا،اس حدیث سے قدرت  کی نشانیوں میں غور کرنے کی اہمیت کا اندازہ  ہوتاہے ۔ آئیے  ہم سورۃ بقرہ کی اس آیت  کو مد نظر  رکھتے ہوئے غور کریں ۔

آسمان میں وجود باری کے دلائل :  اولا اس آسمان کے نیچے  بسنے والے ہمارے نظام شمسی اس کے 10 سیاروں پھر ان کے کم اور زیادہ چاند اور ان کا اپنے اپنے سیاروں کے گردش سیاروں کی سورج  کے گرد گردش ، پھر ان پر لیل ونہار دن مہینے  اور سال کاعظیم فرق ان کے رنگ ،ا سباب کے درجہ میں ان کی تاثیر اورا ن کے اس مضبوط نظم ونسق پر غور کریں ثانیاً ہمارے نظام شمسی  کے علاوہ دوسری کہکشاؤں  ، ستاروں  دمدار ستاروں اور شہاب  ثاقب  پر غور فرمائیں کس منظم اندازسے چل رہے ہیں پھر یہ لامحدودخلاء بھی قدرت کا عظیم  شاہکار ہے ۔امریکن خلانوردجان گلین اپنے ایک مقالے  میں لکھتا ہے یہی وہ ا یک واحدشی  ہے جوخلاء میں خدا کے وجود پر دلالت  کرتی ہے اور یہ کہ کوئی طاقت  ہے جو ان سب کو مرکزومحور سےو ابستہ رکھتی ہے ۔” آگے جہاز کو قطب نما کی ضرورت  پیش آنے کے  متعلق لکھتا ہے “وہ قوت جو قطب نما کو متحرک رکھتی ہے ۔ ہمارے تمام حواس خمسہ کے لیے  ایک کھلا چیلنج ہےا سے ہم نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ چھوسکتے ہیں نہ چکھ سکتے ہیں نہ سونگھ سکتے ہیں حالانکہ نتائج کا ظہور  اس پر واضح دلالت  کررہاہوتا ہے کہ یہاں کوئی پوشیدہ قوت ضرور موجو د ہے  ( معارف القرآن  494 بحوالہ ماہنامہ سیربین ) اندازہ لگائیں کہ یہ آسمان کتنا بڑا ہوگا لیکن غور کریں کیاہمیں کہیں ستون دکھائی دیتے ہیں ایک چھوٹی سی کٹیہ بلاستوں کے قائم نہیں رہ سکتی لیکن عجب شان  ہےا س قادر  کی جس نے اتنے بڑے  آسمان کو بلاعمود کےقائم کردکھایا۔

زمین میں وجود باری کے دلائل : زمین کی خشکی پر جن نظر نواز مناظر کاسامان کیاہےا س میں غور فرمائیں یہ سبزہ وسمن دلکش بلندیں  رنگا رنگ بستیاں ، فرازکوہ سے گرتی ہوئی نعمات گاتی ندیاں ، بنجر  زمینیں  گھٹاؤں  میں لپٹی ہوئی کوہستانی سلوٹیں ، خوبصورت  کہساروں  کی حسین اونچائی  ان کی رنگا رنگی  اپنے دامن میں لیے ہوئے غاروں کی رعنائی یہ سب وجود باری پر ناطق ہیں، پہاڑوی سلسلوں  میں وادی  جاوا۔جسے وادی  موت سے موسوم کرتے ہیں قابل غور  ہےا س میں جوجاندار  گیا واپس نہیں آیا کتنے ہی جانداروں  کی ہڈیاں اور کپڑے وہاں ملتے ہیں ، یہ ایک خاص قسم کے زہریلے  درخت ، یاآتش فشاں پہاڑوں کی زہریلی گیس کا اثر ہے جوقدرت  نے انہیں ودیعت  کیا۔ ( سائنس اورا سلام 276)  پھر ان لہلہاتے کھیت  اور مسکراتے نباتات میں عجائب کا کیاہی بیان ہے پھولوں کی خوشنمائی پتوں کی دلربانی  کتنی حسین لگتی ہیں ہر درخت کی سبزی دوسرے سے مختلف پتوں کی لکیریں دوسرے پتوں سے مختلف، ہوا سے غذا حاصل کرنے والے پودوں  پر معلق پودے جن کی جڑیں زمین  میں نہیں ہوتیں ۔ بیروت  میں پائے جانے والے انسان اورچڑیا کی شکل کے پودے ، چھوئی موئی کا درخت  کہ جوحرکت  یاچھونے سے سکڑجاتاہے ۔ نباتاتی گھڑی،جانوروں اور مکھیوں کوشکار کرنےوالے نباتات  اور بے پناہ نشانیاں یہ سب قادر مطلق  کےوجود پر دلالت کرنے والی ہیں اوراب توخوردبین ( مائکرواسکوپ)  کی کرشمہ سازی نے تودیواروں اور اپنی کی سطح  پر تیرتی  ہوئی کائی اور سبزغبار  میں جنگلات اور مرغزاروں کو دریافت کرلیاہے ۔ جن میں ہرقسم کے پھل پھول درخت بیلیں  ان کے پتوں کا تفاوت  بھی ہوتا ہے ۔

 ( تفصیل کے لیےا سلام اور سائنس ترجمہ الرسالتہ الحمیدیہ 383 تا 288 ملاحظہ فرمائیں  )

کشتی بحری  جہازوں اور سمندر میں آیات وجود باری :۔ ہماری  اس زمین کا 75 فیصد حصہ پانی ہے اسے آپ بحر محیط کہ سکتے ہیں پھر 25  فیصد خشکی میں بھی پانی کا ذخیرہے سوائے چند  ذخیروں کے سارا بحر محیط نمکین پانی ہے اگر یہ پانی میٹھا ہوتا نمکین  اور کڑوا نہ ہوتاتوتابکاری  اثرات ، آلائش  اور سمندری  مخلوق کی وجہ سے بہت پہلے  خراب ہوچکاہوتا یہ خالق کی کر م نوازی ہے جو اسے کڑوابنایاہے ۔ قرآن میں ہے  ( مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ﴿٢٠﴾ ( الرحمٰن  20 ۔19   )

سمندر میں بعض جگہیں ایسی ہیں کہ ایک ہی سمندر کا پانی ہے درمیان میں ایک دھاری  سی نظر آتی ہے اس کے ایک پار میٹھاپانی ہوتاہے دوسرے  پارکڑوا،کڑوے  پانی میں طوفانی تلاطم ہوتا ہےا ور میٹھاساکن کشتیاں  بھی بعض لوگ میٹھے پانی میں ہی چلاتے ہیں ایک ہی سمندر مختلف نوعیت  کے دودریا نظر آتے ہیں ۔

چائگام،باریساں اورگجرات میں ڈابھیل سملک ضلع سورت یہ ایسی جگہیں  ہیں جہاں اس کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے  ( بیان القرآن ج 8ص 55  تفسیر عثمانی ص 472 معارف القرآن ص 479 ج 6)

کوسٹو ایک  بڑا فرانسیسی سائنسدان ہے پانی کی تحقیقات میں مشہور ہے اس نے اس بارے میں بہت تحقیق کی ایک سمندر کا رنگ  مختلف ہے دوسرےکااس سے مختلف ہے دونوں آپس میں ملتے کیوں  نہیں ؟ اس نے تحقیق کے بعد  یہ دریافت  کیاکہ بحیرہ روم اور بحیرہ اوقیانوس اٹلانٹک کیمیاوی اور حیاتیاتی لحاظ سے بہت مختلف  ہے وجہ یہ بیان کی جبر الٹر ( قدیم جبل  لطارق ) کے جنوبی  ساحلوں ( مراکش ) اورشمالی ساحلوں ( اسپین) سے بالکل غیر متوقع طور پر  میٹھے پانی کے بہت  بڑے چشمے ابلتے ہیں یہ چشمے ایک دوسرے کی طرف 45 ڈگری  زاویہ پر تیزی سے بڑھتے ہوئے ایک ڈیم نما کنگھی  کے دندانوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ، یہ دونوں  پانی میں آڑ بن جاتی ہے  جس کی وجہ سے بحیریہ روم اور اٹلانٹک  ایک دوسرے  میں خلط ملط نہیں ۔ا س تشخیص کے بعد جب سورہ رحمٰن کی مذکورہ آیات  دکھلائی گئی توبے حد حیران  ہوا اور قرآن  کی عظمت  کی تعریف  کرتے ہوئے مسلمان ہوگیا  ۔

( سنت نبوی اور جدید سائنس 292تا293 )

سمندرکی مخلوق خشکی کی مخلوق سے زیادہ ، سمندری پھول زمینی پھولون سے انتہائی خوبصورت ،سمندری  موتی اور مونگیں زمینی جواہرات  سے اعلیٰ درجہ سمندری پہاڑ ٹیلے  صحراء سب خالق کے وجود  کی نشانیاں ہیں سمندر  کی اندھیری گہرائیوں میں 30 مختلف رنگ دیتی ہوئی لاتعداد مچھلیوں اوراعلیٰ درجہ  سمندری پیاڑ ٹیلے  صحراء  سب خالق  کےوجود کی نشانیاں ہیں سمندر کی اندھیری  گہرائیوں میں 30 مختلف  رنگ  دیتی ہوئی لاتعداد مچھلیوں اور نیلے  رنگ کی مکڑیوں نے طلسماتی سماں پیدا کیاہوتاہے  ، سمندری  انسان سمندری  کتا اور خنزیر کوئی پہلیاں نہیں حقیقت  ہیں علامہ دمیری متوفی 808ھ نے حیوۃ الحیوان  میں اورھدایہ ص442ج 4پر بھی ان کا ذکر کیاہے ۔

دنیا میں جتنی تجارت ہوتی ہے اکثر حصہ دارومدار بحری جہازوں اور راستوں پر منحصر ہے اگریہ نہ ہوں تودنیا کاکاروبارٹھپ ہوجائے ۔

لیل ونہارمیں وجودخداوندی  کے دلائل :

اولاًدن رات کی مختلف حالتوں کودیکھیے دن سراپا ئے روشنی اور رات کی تاریکی ہستی ہے دن کی روشنی ہی روشنی ہوتی رات کی تاریکی نہ ہوتی تاریکی کو دوام ہوتا دن کی سفیدی غائب ہوتی توزندگی کس قدر بے کیف ہوتی ۔دھوپ سے لدی ہوئیدن کی ساعتوں میں جو احساس ہوتاہے آسمان کی قندیلوں سے مزین راتوں میں آپ کا وجدان ا س سے یکسر مختلف ہوگا، پھر ان کو دیکھیے کہ کاروباری سرگرمی ہے رات کو دیکھیے کہ سبھی بستر  پرخوابیدہ ہیں ،نیند صحت کی جان ہے ذرا س میں غور کیجیے  کہ روشنی میں نیند کم آتی ہے اگر آتی ہے تو آنکھ جلد کھل جاتی ہے اگر اللہ نیند کورات کے بجائے دن میں رکھتے توکتنی وقت ہوتی تمام ذی روح کی نیند ایک وقت میں جبری کردی گئی ہے کیونکہ اگر ہر انسان کے نیند کے اوقات مختلف  ہوتے تو جس وقت  کچھ لوگ سوناچاہتے دوسرے  لوگ کاموں میں مشغول  ہوتے تو شوروشغب  اور مزدوروں کی چلت پھرت  ان کی نیند  میں خلل انداز ہوتی ،ا نسان کی ہزاروں حاجتیں  دوسرے سے متعلق ہوتی ہیں ۔اگراوقات  اسراحت مختلف  ہوتےتو باہمی اس تعاون وتناء صرمیں شدید حرج ہوتا ( معارف القرآن )

اپنا تبصرہ بھیجیں