تجھے چھوڑدیا کہنےسے طلاق کا حکم

سوال : (میں نے تجھے چھوڑ دیا) کے الفاظ تین مرتبہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: واضح رہے کہ “میں نے تجھے چھوڑ دیا ہے” کا جملہ صریح طلاق کے لیے استعمال ہوتاہے اور ان الفاظ سے طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے۔

لہٰذا اگر یہ جملہ تین دفعہ کہا ہے تو تین طلاقیں ہوکر میاں بیوی ایک دوسرے پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکے ہیں۔اب نہ رجوع جائز ہے اور نہ حلالہ شرعیہ کے بغیر تجدید نکاح کے ساتھ رہنا جائز ہے۔حلالہ شرعیہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مطلقہ خاتون عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرلے اور پھر دوسرا مرد ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے بعد بغیر کسی شرط کے اپنی مرضی سے طلاق دے دے اور عورت عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرلے۔آج کل جو طلاق کی شرط لگا کر حلالہ کیا جاتا ہے۔حدیث میں ایسے شخص کو ملعون کہا گیا ہے۔

==================

حوالہ جات:

1.قال لھاالرجل أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لانه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن لولا ذلك لوقع به الرجعي۔۔۔۔۔۔۔۔

وأما إذا تعورف استعماله في مجرد الطلاق لا بقيد كونه بائنا يتعين وقوع الرجعي به كما في فارسية سرحتك، ومثله ما قدمناه في أول باب الصريح من وقوع الرجعي بقوله: سن بوش أو بوش أو في لغة الترك مع أن معناه العربي أنت خلية، وهو كناية، لكنه غلب في لغة الترك استعماله في الطلاق۔

(“رد المحتار”10 / 500:

باب الصريح ( صريحه ما لم يستعمل إلا فيه ) ولو بالفارسية ( كطلقتك وأنت طالق ومطلقة )

2. “رد المحتار”11 / 01:

( قوله ولو بالفارسية ) فما لا يستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية ، وما استعمل فيها استعمال الطلاق وغيره فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام بحر ۔

3 .صورت مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہوگئیں، اور بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ شوہر پر حرام ہوگئی، اب نہ رجوع جائز ہے اور نہ ہی تجدید نکاح کے بعد ساتھ رہنا جائز ہے۔چھوڑدیا کا لفظ صریح کنایہ رجعی ہے اور لفظ آزاد صریح بائن ہے ۔قاعدہ یہ ہے کہ صریح اور بائن مل جائیں تو دونوں ہوتے ہیں۔

فتوی نمبر : 143505200009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

واللہ اعلم بالصواب

24/10/2021

اپنا تبصرہ بھیجیں