ادھار فروخت کی گئی چیز پر تاخیر کی وجہ سے اضافہ لینا

فتویٰ نمبر:467

سوال: میری راشن کی دکان ہے۔ لوگ ہم سے راشن لے جاتے ہیں اور پیسے واپس کرنے میں بہت دیر لگاتے ہیں۔ اب اگر ہم پیسے ہر مہینے کے اعتبار سے لیں تو یہ سود ہے۔ براہ مہربانی کوئی ایسی صورت بتائیں کہ ہم اپنے مال کو جتنی دیر تک مشغول رکھتے ہیںاس پر کوئی فائد ہ لیں۔ جبکہ مقررہ تاریخوں سے کئی مہینے بلکہ سال تک گزر جاتے ہیں۔ تب جاکر لوگ پیسے واپس لاتے ہیں۔ اگر قرض نہ دیں تو لوگ بڑی مقدار میں راشن نہیں لیتے۔ مہربانی فرماکر رہنمائی کریں۔

جواب :اسی طرح دونوں صورتوں میں قیمت الگ الگ بھی متعین کی جاسکتی ہے مثلاًنقد100روپے اور ادھار120روپے کی۔ جو بھی صورت عقد کے وقت طے ہوگئی بعدمیں ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اس میں اضافہ جائز نہیں۔ جب اکثر لوگ ادھار پر لے جاتے ہیں تو آپ ابتدا ہی سے مدت ادھار کو دیکھتے ہوئے زیادہ قیمت طے کرسکتے ہیں۔ البتہ اگرآپ کسی کاروباری مجبوری کی وجہ سے موجودہ مارکیٹ ریٹ پر بیچنے پر مجبور ہوں تو اس پر اضافے کی کوئی جائز صورت نہیں۔
ایک مسلمان تاجر کی حیثیت سے اسے چاہیے کہ ادائیگی کی تاخیر پر صبر کرے اور اس پر ملنے والے اجر کا مراقبہ کرے۔ حدیث شریف میں اس کے بہت فضائل آئے ہیں۔ ایک حدیث میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ ایک تاجر جب اپنے قرض داروں سے رقم کی وصولی کے لیے اپنے نوجوانوں (ملازموں)کو بھیجتا۔ اگر کسی کو تنگ دست پاتا تو انہیں کہتا کہ اسے مزید چھوڑ دو (مزید مہلت دے دو) شاید اللہ تعالی ہمیں معاف فرمادے، پس اللہ تعالیٰ نے (اسی کے سبب) اسے معاف فرمادیا۔‘‘
ایک اور حدیث شریف میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی تنگ دست محتاج کو(دین/قرض کی ادائیگی میں) مہلت دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن عرش کے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘(صحیح البخاری 7/473، بترقیم الشاملۃ آلیا،رد المحتار20/15)

 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں