وراثت کی تقسیم

فتویٰ نمبر:981

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

اسلام علیکم!

ایک خاتون ہیں انہوں نے دوسری شادی کی دوسرے شوہر کی چار بیٹیاں ہیں بیٹا کوئ نہیں ایک بھتیجا ہے جو داماد بھی ہے

پہلا سوال یہ ہے کہ خاتون کے ان شوہر نے خاتون کے نام ایک فلیٹ کیا کاغذات پیپر ورک میں وہ فلیٹ خاتون کے نام ہے اب شوہر کا انتقال ہوگیا ہے کیا وہ فلیٹ وراثت میں تقسیم ہوگا یا خاتون کا ذاتی فلیٹ ہوگیا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ شادی کے وقت شوہر نے خاتون کو زیور دیا تھا کیا وہ زیور بھی اب وراثت میں تقسیم ہوگا؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

وعلیکم السلام!

سب سے پہلے تو اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ ترکہ کہا کسے جاتا ہے؟ترکے کا اطلاق ہر اس مال و جائیداد،نقد روپیہ اور استعمال کے چھوٹے بڑے سازوسامان پر ہوتا جو کسی مرد یا عورت کے انتقال کے وقت اس کی ملکیت میں ہو۔پس اگر کوئی مرد یا عورت اپنے انتقال سے پہلے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد یا مال میں سے کوئی چیز کسی کے نام کردے اور اسی کو تمام تر تصرفات کا بھی اختیار دے دے تو اب یہ مال و جائیداد اس کے مرنے کے بعد اس کا ترکہ شمار نہ ہوگا۔

مذکورہ مسئلے میں پہلے سوال کے جواب کو اسی تعریف کی روشنی میں سمجھا جائے کہ اگر شوہر نے فلیٹ خرید کر مرض الوفات سے پہلے پہلے بطور ہبہ اپنی بیوی کے نام منتقل کرکے اس کا قبضہ اس پر کرادیا تھا تو اب یہ فلیٹ بیوی کی ملک ہے،ترکہ متوفی(مرنے والے کا ترکہ)نہیں،اس آدمی کی اولاد اس کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔

”یملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض،فالقبض شرط لثبوت الملک.“(شرح المجلة،ص٤٧٣،کتاب الھبة،الباب الثالث)

واضح رہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب شوہر نے مذکورہ فلیٹ اپنی زوجہ کو بطور ہبہ دیا ہو اور ساتھ قبضہ بھی کرایا ہو،بغیر قبضہ کے ہبہ اور ملک تام نہیں ہوتا۔

”ومنھا ان یکون الموھوب مقبوضا،حتی لا یثبت الملک للموھوب لہ قبل القبض.“(الفتاوی العالمکیریة،٤|٣٧٤،کتاب الھبة،الباب الاول)

اس کے علاوہ مرحوم شوہر نے جو زیورات شادی کےوقت بیوی کو دیے تھے اور اسے ان زیورات کا مالک بھی بنادیا تھا تو وہ بیوی کی ملک ہوگئی،اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی،لیکن اگر صرف استعمال کرنے کی صراحت کے ساتھ دیا تھا تو یہ شوہر کا ترکہ ہے اور یہ زیور بھی وراثت میں تقسیم ہوگا۔اور اگر دیتے وقت کوئی صراحت نہیں کی گئی تھی تو علاقہ اور خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا۔

و اللہ خیر الوارثین

قمری تاریخ:٢٥ صفر،١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ:٤نومبر،٢٠١٨ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبدالرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

اپنا تبصرہ بھیجیں