ووٹ ضرور دیجیئے

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی 

ملک میں الیکشن کا عمل شروع ہوچکا ہے، کچھ علاقوں میں لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں اور کچھ علاقوں میں لوگ اپنے اس حق کا استعمال کرنے والے ہیں، مسلمان کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم انتخاب اور رائے دہی کے اس عمل کے بارے میں اسلامی اور شرعی نقطہِ نظر جاننے کی کوشش کریں؛ کیونکہ اسلام ایک ہمہ گیر مذہب اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کی بابت رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

ووٹ کے بارے میں بھی اسلام کے اصولی احکام سے ہمیں روشنی ملتی ہے، جب کوئی شخص انتخاب میں امیدوار بنتا ہے تو وہ بنیادی طور پر دو باتوں کا مدعی ہے، اول اپنی امانت و دیانت کا، دوسرے اپنی اہلیت اور صلاحیت کا، حضرت یوسفؑ نے جب حکومتِ مصر کے سامنے بار قیادت اٹھانے کی پیشکش کی تھی تو فرمایا تھا: ’’اجْعَلَنِیْ عَلٰی خَزَائِن الْاَرْضِ، اِنِّیْ حَفِیْظ عَلِیْم‘‘ (یوسف:۵۵) یعنی خزانے کے انتظام اور انصرام پر مجھے مامور کیجئے کہ میں نگہبان اور آگاہ ہوں، حفاظت و نگہبانی اسی شخص سے ممکن ہے جو دیانت دار اور امین بھی ہو، جو شخص خود ہی خیانت اور بددیانتی کا مرتکب ہو، وہ کیا حفاظت اور نگرانی کا فرض انجام دے سکتا ہے؟ ۔۔۔ اور علم سے اشارہ صلاحیت اور اہلیت کی طرف ہے، جب تک کسی معاملہ سے متعلق علم و آگاہی نہ ہو، انسان اس کے انتظام و انصرام اور اس سلسلہ میں مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوسکتا، پس، امیدوار کی حیثیت سے ا پنے آپ کو پیش کرنا اپنے تیئں امانت دار اور باصلاحیت ہونے کا دعویٰ ہے۔ 

ووٹ رائے دہندوں کی طرف سے اس کے اس دعویٰ کی تصدیق اور اس کے راست گو ہونے کی گواہی ہے، گویا آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، اس کے حق میں گواہی دیتے ہیں کہ جتنے امیدوار اس حلقے سے کھڑے ہیں، ان میں یہ سب سے زیادہ دیانت دار اور با صلاحیت ہے اور معلوم ہے کہ جہاں سچی گواہی انسان کے لئے اجرو ثواب کا موجب ہے، جھوٹی گواہی اسی قدر عذاب و عقاب کا سبب ہے، رسول اللہ ﷺ نے جھوٹ اور جھوٹی گواہی کی سخت مذمت فرمائی ہے، ایک بار رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر کے بعد تین بار ارشاد فرمایا کہ جھوٹی گواہی کو شرک کے ہم درجہ قرار دیا گیا ہے: ’’عدلت شھادۃ الزور بالا شراک باللہ‘‘ پھر قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ‘‘ (الحج:۳۰) یعنی بت پرستی کی نجاست اور جھوٹی بات کہنے سے بچو۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۳۵۹۹، ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۲۳۹۴) اللہ تعالی نے مومن کے خاص اوصاف میں سے اس بات کو بھی قرار دیا ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتا، (الفرقان: ۷۲) لہذا کسی امیدوار کو دوسرے امیدوار کے مقابلے نامناسب جانتے ہوئے پھر بھی اس کے حق میں ووٹ دینا گویا جھوٹی گواہی دینا اور ناحق اپنے آپ کو ایک بڑے گناہ سے دوچار کرنا ہے۔ 

جہاں جھوٹی گواہی دینا گناہ ہے، وہیں ضرورت کے باوجود گواہی نہ دینا ’’کتمان شہادت‘‘ ہے اور یہ بھی سخت گناہ ہے۔ قرآن مجید نے گواہی کے چھپانے کی سخت مذمت کی ہے، ارشاد ہے: ’’لا تَکْتَمُوْا الشَّھَادَۃَ وَ مَنْ یَکْتَمُھا فَانِّہ اٰثِم قَلْبِہ‘‘ (البقرۃ:۲۸۳) کہ گواہی کو چھپایا نہ کرو، جو گواہی کو چھپائے گا اس کا دل گناہگار ہوگا، اس لئے ہندوستان کے موجودہ حالات میں مسلمانوں پر ووٹ دینا شرعاً واجب ہے اور کسی شدید ضرورت کے پیش آنے یا ضرر شدید کے اندیشہ کے بغیر ووٹ دینے سے پہلو تہی کرنا گناہ کا باعث ہوسکتا ہے اور عند اللہ اس پر سخت مواخذہ کا اندیشہ ہے۔ 

بعض حضرات پیسے لے کر کسی امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں، یہ بھی گناہ و حرام ہے، کیونکہ یہ پیسے لے کر کسی شخص کے حق میں جھوٹی گواہی دینا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ رشوت ہےاور رشوت کتنا سخت گناہ ہے اور کیسی سخت معصیت ہے؟ یہ کسی مسلمان کے لیےمحتاج اظہار نہیں، رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور لینے والے پرلعنت بھیجی ہے، ایک حدیث شریف میں ہے کہ رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں دوزخی ہیں، چند پیسوں کے لیے اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کی لعنت کا مستحق بنا لیا اور دوزخ خرید ناکسی عقلمند کا کام نہیں ہوسکتا۔ 

ہمارے ملک کے قانون کے تحت عورتوں کو بھی ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، مسلمان خواتین کو بھی چاہیے کو وہ اپنے اس جمہوری حق سے فائدہ اٹھائیں، اسلامی نقطہ نظر سے عورت الیکشن میں امیدوار نہیں ہوسکتی؛ البتہ اگر ہندوستان میں خواتین کے لئے سیٹیں مخصوص کردی جائیں تو یہاں کے خصوصی حالات میں اس کے سوا چارہ نہ ہوگا کہ اگر مسلمان اس قانون کے روکنے پر قادر نہ ہوں تو کمتر درجے کی برائی سمجھتے ہوئے خواتین کو بھی انتخابی امیدوار بنائیں۔ تاہم عورت کے ووٹ دینے میں کچھ حرج نہیں اس پر اتفاق ہے ، فقہاء کے یہاں ایک مسئلہ گواہوں کے تزکیہ کا آتا ہے، یعنی جو گواہان عدالت میں پیش ہوئے ہوں ان کے بارے میں معتبر اور نامعتبر ہونے کی گواہی لی جائے، اور اس سلسلے میں عورتوں کی گواہی کو معتبر مانا گیا ہے، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’ ویقبل تعدیل المرأۃ لزوجھا وغیرہ کانت امرأۃ برزۃ تخالط الناس و تعملھم‘‘ (ہندیہ: ۳/۵۲۸) ۔۔۔۔ ووٹ بھی اسی قبیل سے ہے۔ 

ووٹ میں شفاعت و سفارش کا پہلو بھی پایا جاتا ہے، جب آپ کسی کو ووٹ دیتے ہیں تو گویا اس کے حق میں سفارش کرتے ہیں کہ اسےقوم و ملک کے انتظامی امور میں نمائندہ بنایا جائے اور شفاعت و سفارش اگر درست ہو تو باعث اجروثواب ہے اور غلط سفارش کی جائے تو سفارش کنندہ بھی گناہ میں حصہ دار ہوگا؛ چناچہ اللہ کا ارشاد ہے کہ جو بہتر سفارش کرے گا، اس کے لیےاس میں سے حصہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں۔ (النساء:۸۵) غلط سفارش کا اندازہ اس سے کیجیےکہ حضرت اسامہ ؓ نے چوری کے ایک مقدمے میں مجرم کے لیےسفارش کی ، تو آپ ﷺ اتنے برہم ہوئے کہ کھڑے ہوکر اس پر مشتمل خطبہ ارشاد فرمایا: کہ تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہوگئے کہ جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھو ڑ دیتے اور کوئی معمولی شخص چوری کرتا تو اس پر سزا جاری کرتے، (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۴۳۷۳) اس لئے غلط سفارش بھی نہایت ہی مذموم عمل ہے اور چونکہ ووٹ کے ذریعہ منتخب ہونے والے نمائندہ کے عمل سے اجتماعی نفع و نقصان متعلق ہے، اس لیےیہاں غلط سفارش کا گناہ بھی نسبتاً زیادہ شدید ہوگا۔ 

ووٹ میں ایک پہلو وکالت کا بھی ہے، ووٹ کے ذریعہ آپ جو نمائندہ منتخب کرتے ہیں وہی سربراہ حکومت یعنی وزیراعظم و وزیراعلیٰ اور صدر مملکت یعنی صدرِ جمہوریہ کا انتخاب کرتے ہیں، پھر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہی کے واسطہ سے ملک کی پوری انتظامیہ تشکیل پاتی ہے اور عدلیہ اور انتظام کے کچھ صیغے صدر کے واسطے سے وجود میں آتے ہیں، اس طرح ملک کا نظم و نسق اور نظامِ عدلیہ کا بالواسطہ آپ کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان مقننہ ہی پر انحصار ہے، پس گویا ملک کے نظم و اقتدار کے لیےذمہ داروں کے انتخاب کے باب میں یہی ارکان آپ کے نمائندہ اور وکیل ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ شرعاً وکیل کے ذریعہ انجام پانے والے افعال اس شخص کی طرف بھی منسوب ہوتے ہیں جس نے اس کو وکیل بنایا ہو، اس لحاظ سے غور کیجیے تو کسی امیدوار کو ووٹ دینا نہایت ہی اہم مسئلہ ہے اور یہ اس کے اچھے اور برے افعال میں شریک و سہیم ہونے کے مترادف ہے۔

ان حالات میں ووٹ دینا اور اپنے حق رائے سے استفادہ کرنا جہاں قومی فریضہ ہے، وہیں مسلمانوں کے لیےمذہبی فریضہ بھی ہے اور ووٹ نہ دینا ایک اجتماعی ملی فریضہ سے غفلت ہے، بالخصوص موجودہ صورت حال میں جبکہ فرقہ پرستی کے سب سے بڑے مبلغ و داعی نے تخت اقتدار پر اپنا تسلط جمانے کے لئے ہلہ بول رکھا ہے، اس حق کا استعمال ہر مردوعورت کے لیےضروری ہے؛ تاکہ ایسے نمائندوں کا انتخاب ہوسکے جو نسبتاً صالح کردار اور اخلاقی اقتدار کے حامل ہوں، جو مجرمانہ سیاست اور فرقہ ہرستی پر یقین نہ رکھتے ہوں اور ملک کے سیکولر کردار کی بابت مخلص ہوں، وہ چڑھتے سورج کے پرستار نہ ہوں؛ بلکہ حق اور سچائی کے طرف دار ہوں، موجودہ حالات میں مکمل ایمان دار اور پاک و صاف کردار کے حامل سیاسی لیڈر کی تلاش جوئے شیر لانے سے کم نہیں، شریعت کا اصول ہے کہ جہاں ’’بہتر‘‘ میسر نہ ہو، وہاں نسبتاً ’’کم خراب‘‘ کو اختیار کیا جائے، اس لیےموجودہ حالات میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسے امیدوار کو ووٹ دیا جائے، جو ملک کی مختلف اکائیوں کو ایک نظر سے دیکھتا ہو، فرقہ پرست نہ ہو اور نسبتاً صالح کردار کا حامل ہو، وہ کم از کم دو شر میں سے کمتر درجہ کا شر ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں