وسیلہ سے دعا مانگنےکاحکم

سوال: کیا وسیلہ سے دعا مانگنا جائز ہے ؟

جواب:”وسیلہ” ہر وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی ذات تک رسائی یا قرب حاصل کیا جا سکتا ہو۔

وسيلة کی ابتداءً دو قسمیں ہیں:

1) نیک اعمال کا وسیلہ

2) نیک شخصیت کا وسیلہ

اعمال کا وسیلہ یہ ہے کہ انسان نے زندگی میں کوئی نیک عمل کیا ہو تو اللہ تعالیٰ سے اس طرح سوال کرے کہ “یااللہ! اس نیک عمل کی برکت سے مجھ پر رحم فرما!”یہ جائز ہے،اس کی دلیل بخاری شریف کی مشہور حدیث”حدیث الغار” ہے،جو حوالہ جات میں درج ہے۔

کسی بزرگ شخصیت کے وسیلہ سے دعا کرنے کی چند صورتیں ہیں:

1. بعض لوگ براہِ راست اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے بجاۓ نیک بزرگوں سے دعا کرواتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ذاتی طور پر ان کی اپنی رسائی اللہ تعالیٰ کے دربار میں نہیں ہو سکتی، اس لیے بزعم خود اللہ تعالیٰ نے نیک بندوں کو لوگوں کی حاجات پوری کرنے کی قدرت دے رکھی ہے۔جس طرح دنیا کے بادشاہ اپنے ماتحت رکھتے ہیں، جو اپنے کام میں خود مختار ہوتے ہیں ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کو کچھ اختیارات دیے ہوئے ہیں جن سے وہ بندوں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں۔ اس عقیدے سے وسیلہ سے دعا مانگنا سخت جہالت کی بات ہے اور ہندوانہ نظریہ ہے، اس لیے جائز نہیں ؛ کیونکہ کسی بھی ایسے کام میں غیر اللہ سے مدد طلب کرنا جس کی استطاعت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ” شرک اکبر ” کہلاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

إذا سالك عبادي عني فإني قريب اجيب دعوة الداع إذا دعان .

( البقرة ١٨٦)

ترجمہ،؛ جب آپ سے میرے بندے سوال کرتے ہیں تو آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں ان کے قریب ہی ہوتا ہوں ۔ میں ان کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ جب وہ مجھے پکارتے ہیں۔

2. جو مقدس ہستیاں دنیا سے جاچکی ہیں، ان کی قبر پر جاکر دعا کی درخواست کرنا، یہ اگر چہ اختلافی صورت ہے،مگر چونکہ اس سے عقیدہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے،اس لیے اس سے بھی احتراز لازم ہے۔

3.بزرگ ہستیوں میں سے جو زندہ ہوں ان سے براہ راست نہ مانگا جائے بلکہ ان سے دعا کی درخواست کی جائے،یہ درست ہے،بلکہ عین سنت ہے،چنانچہ حدیث میں ہے:

عن ابن عمر أن عمر (رضي الله عنهما) استاذن النبی صلی الله عليه وسلم في العمرة فاذن له فقال يا أخي أشركنا في صالح دعائك ولا تنسنا۔

حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عمرہ کی اجازت پانی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اجازت دی اور فرمایا کہ اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا اور میں نہ بھولنا‘‘۔(المسندالامام احمد بن جنبل رقم الحديث ٥٢٢٩, ج٤ ص٥٥٠, دار الحديث قاهره)

4.مانگا تو اللہ سے جائے، مگر بزرگ ہستیوں سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر دعا کرنا،مثلا یوں کہے:

“اے اللہ! جتنی رحمتیں تیری اس بندے پر متوجہ ہیں اور جتنا قرب اسے حاصل ہے آپ کا حاصل ہے،اس کی برکت سے مجھے فلاں چیز عطا فرما”۔

یہ صورت بھی جائز ہے،بلکہ عاجزی زیادہ ہونے کی وجہ سے بہتر ہے۔

========================

حوالہ جات

قرآن کریم سے دلائل:

1) وكانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا

( البقرة ٨٩)

ترجمہ؛ اور اس سے پہلے نبی آخر الزماں کے وسیل سے کافروں پر فتح مانگتے تھے

2) ياايها الذين أمنوا اتقوا الله واتبغوا إليه الوسيلة

( المائده : ٣٥)

ترجمہ؛ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی جانب وسیلہ تلاش کرو ( المائدة: ٣٥)

احادیث مبارکہ سے دلائل:

1) حدثنا ابو اليمان اخبرنا شعبب عن الزهري حدثني سالم بن عبدالله ان عبدالله بن عمر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول انطلق ثلاث رهطة ممن كان قبلكم حتى اووا المبيت الى غار فدخلوه فانحدرت صخرة من الجبل فسدت عليهم الغار فقالوا انه لا ينجيكم من هذه الصخرة الا ان تدعوا الله يصالح أعمالكم قال رجل منهم اللهم ابوان شيخان كبيران وكنت لا اغبق قبلهما اهلا” ولا مالا” فناى بي طلب شيء يوما” فلم ارح عليهما حتى نام فحملت لهما غبوقهما فوجدتهما نائمين فكرهت أن اغبق قبلهما اهلا” ومالا” فلبثت والقدح على يدي انتظر استيقاظهما حتى برق الفجر فاستيقظا فشربا غبوقهما اللهم ان كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك ففرج عنا ما نحن فيه من هذه الصخره فانفرجت شيا” لا يستطيعون الخروج قال النبي صلى الله عليه وسلم وقال الأخر اللهم كانت لي بنت عم كانت أحب الناس الي فاردتها على نفسها فامتنعت مني حتى ألمت بها سنة من السنين فجاءتني فأعطيتها عشرين و مائة دينار على أن تخلي بيني و بين نفسها ففعلت حتى إذا قدرت عليها قالت لا أحل لك ان تفض الخاتم الا بحقه فتخرجت من الوقوع عليها فانصرفت عنها وهي أحب الناس الي وتركت الذهب الذي اعثيطها اللهم ان كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه فانفرجت الصخرة غير أنهم لا يستطيعون الخروج منها قال النبي صلى الله عليه وسلم ؛ وقال الثالث اللهم لإني استأجر أجرا أعطيتهم أجرهم غير رجل واحد ترك الذي له وذهب فثمرت اجره حتى كثرت منه الاموال فجاءني بعد حين فقال يا عبد الله أد إلى أجري فقلت له كل ما ترى من أجرك من الإبل والبقر والغنم والرقيق فقال يا عبد الله لا تستهزئ بي فقلت إني لا استهزئ بك فأخذ كله فاستاقه فلم يترك منه شيا” اللهم فإن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه فانفرجت الصخرة فخرجوا يمشون.

( صحيح البخاري حديث رقم ٢٢٧٢؛ ج١ ص ٣٠٣ …كتاب الاجارة..باب، من استاجرا” اجيرا” فترك اجره فعمل فيه المستاجر فزاد ومن عمل في مال غيره فاستفضل )

ترجمه،؛ عبیداللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے تین آدمی چلے جا رہے تھے یکایک ان پر بارش ہونے لگی تو وہ سب ایک غار میں پناہ گیر ہوئے اور اس غار کا منہ پر ایک پتھر آن گرا جس سے غار کا منہ بند ہوگیا ۔ ایک نے دوسرے سے کہا صاحبو! بخدا بجز سچائی کے کوئی چیز تم کو نجات نہ دے گی، لہذا تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ اس چیز کے وسیلہ سے دعا مانگےجس کی نسبت اسے یقین ہو کہ اس نے سچائی کے ساتھ کیا ہے ۔چناچہ پہلے نے خلوص کے ساتھ دعا کی کہ اے خدا! تو خوب جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بہت سن رسیدہ تھے میں روزانہ رات کو ان کے لئے اپنی بکریوں کا دودھ لے جاتا تھا ایک رات اتفاق سےان کے پاس اتنی دیر سے پہنچا کہ وہ سو چکے تھے۔ اورمیرے بال بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے۔ (مگر) اپنے تڑپتے ہوئے بال بچوں کو ماں باپ سے پہلے اس لئے دودھ نہ پلایا کہ وہ سو رہے تھے اور ان کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور نہ ان کو چھوڑنا گوارا ہوا کہ وہ اس(دودھ) کے نہ پینے کی وجہ سے کمزور ہو جائیں لہذا میں رات بھر برابر انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئ اےخدا! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے صرف تیرے خوف سے کیا تو اس پتھر کو ہم سے ہٹا دے۔چناچہ وہ پتھر کچھ سرک گیا. اتنے میں دوسرا بولا ، اے خدا ! تو جانتا ہے کہ میرے چچا کی بیٹی مجھے سب آدمیوں سے زیادہ محبوب تھی میں نے اس سےہم بستر ہونے کی خواہش کی مگر وہ بغیر سو اشرفیاں لینےکے رضا مند نہ ہوئی اس لئے میں نے مطلوبہ اشرفیاں حاصل کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کی۔ جب وہ مجھے مل گئیں تو میں نے وہ اشرفیاں اس کو دے دیں اور اس نے مجھے اپنے اوپرقابو دے دیا۔ جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں

بیٹھ گیا تو اس نے کہا اللہ سے خوف کر اور مہر بکارت کو ناحق نہ توڑ پس

اٹھ کھڑا ہوا اور وہ سو اشرفیاں بھی چھوڑ دیں۔ اےخدا! تو خوب جانتا ہے کہمیں نے تجھ سے ڈر کر یہ کامچھوڑ دیا تو اب اس پتھر کو ہم سے ہٹا دے۔

اتنے میں تیسرے نے نے کہا اے خدا! تو خوب جانتا ہے کہ میرا ایک مزدور تھا جس نے فرق چاول کے بدلے میرا کام کر

دیا تھا وہ چلا گیا اور مزدوری چھوڑ گیا تھا میں نے اس فرق کو لے کر زراعت کی پھر اس کی پیداوار ایک گائے خرید لی (چند دن کے بعد وہ مزدور میرے پاس اپنی مزدوری لینے آیا میں نے اس سے کہا کہ یہ اونٹ، گاۓ،بکریاں اور غلام دیکھ رہے ہو یہ سب تمھاری مزدوری ہے۔ اس نے کہا (مذاق نہ کرو) میرا تو تمہارے ذمہ صرف ایک فرق چاول تھا (یہ جانور کیسے) میں نے کہا اس گائے، اونٹ،بکریاں سب کو ہانک لے جا کیونکہ یہ اس فرق کی پیداوار سے میں نے خریدی ہے بس وہ ان سب کو لے گیا اے اللہ تو جانتا ہے کہ یہ کام

میں نے تیری رضا کے لیے کیا ہے تو اب ہم سے (اس پتھر کو)ہٹا دے ۔۔ اللہ تعالی نے وہ پتھر پوری طرح ان پر سے ہٹا دیا اور وہ (تینوں) باہر نکل آئے۔

2) حدثنا يحيى بن بكير قال حدثنا الليث عن عبيدالله بن ابي جعفر قال سمعت حمزه بن عبدالله بن عمر قال سمعت عبدالله بن عمر رضي الله تعالى عنه قال النبي صلى الله عليه وسلم ما يزال الرجل يسال الناس حتى ياتي يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم وقال

إن الشمس تدنوا يوم القيامة حتى يبلغ العرق نصف الأذن فبينما هم كذلك استغاثوا بادم ثم بموسی ثم بمحمدصلى الله عليه وسلم وزاد عبدالله قال حدثني الليث قال حدثني ابن أبي جعفر فيشفع ليقضى بين الخلق فيمشي حتى يأخذ بحلقة الباب يؤمئذ يبعثه الله مقاما محمود يحمده أهل الجمع كلهم وقال معلی حدثنا وهيب عن النعمان بن راشد عن عبدالله بن مسلم أخي الزهري عن حمزة بن عبدالله أنه سمع ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم في المسألة.

ترجمه: عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تک کوئی آدمی لوگوں سے سوال کرتا رہے گا ۔قیامت کے دن اس حالت میں آۓ گا کہ اس کے چہرے گوشت نہ ہوگا۔اور فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا نزدیک آجاۓ گا کہ لوگوں کا پسینہ ان کے کانوں تک آجاۓ گا۔پھر وہ فریاد لے کر جائیں گے آدم علیہ السلام کے پاس، پھر موسی علیہ السلام کے پاس، پھر ہوتے ہوتے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں کے کہ شفاعت کریں کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں درخواست کریں گے ،جو قبول ہو گی اور اس دن اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا فرمائیں گے۔یہ سن کر تمام حاضرین نے اللہ کی حمد و ثناء کی۔

(۔ صحيح البخاري ج ١ ص ١٩٩ كتاب الزكوة، باب من سأل الناس تكثرا” حديث ١٤٧٥)

ا3) عن امية بن خالد ابن عبد الله بن أسيد عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان يستفتح بصمالیک المهاجرين”.

حضرت امیہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فقرا ، ومہاجرین کے توسل سے وقت کی دعا کیا کرتے تھے۔

( مشكوة المصابيح ، باب فضل الفقرأء وما كان عيش النبي صلى الله عليه وسلم ج٢ ص٤٤٧..قديمي)

4) عن عثمان ابن حنیف رضي الله عنه أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم قال ادع الله لي أن يعافيني (الى قوله) اللهم اني اسالك وأتوجه الیک بمحمد نبي الرحمة .

ترجمہ؛ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا کن نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور الله تعالی سے عافیت کی دعا کی عرض کی ( آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا سکھائی ) کہ اے اللہ میں نبی رحمت محمد (صلی الله علیہ وسلم ) کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہوں ۔

( سنن ابن ماجه ،كتاب الصلوة ، باب ما جاء في الصلوة الحاجة ،ص٩٩ قديمي)

5) عن أبي الدرداء رضی الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ابغوني في ضعفا کم فانا ترزقون أو تنصرون بضعفاء كم

ترجمہ؛ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے غرباء میں ڈھونڈ نا ۔بے شک تمھیں ان کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور تمھاری مدد کی جاتی ہے

(مشكوة المصاابیح -باب فضل الفقراء وما كان من عیش النيه – الفصل الثانی -ج٢ ص٤٤٧ قدیمی )

6) عن ابن عمر قال استقی عمر بن الخطاب عام الرمادة بالعباس بن عبدالمطلب. وذكر الحديث، وفيه : فخطب الناس عمر فقال أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرى للعباس ما يرى الولد للوالد فاقتدوا ایها الناس برسول الله صلى الله عليه وسلم في عمه العباس واتخذوه وسيلة إلى الله ۔

ترجمہ:ابن عمر کے طریق سے بھی مروی ہے کہ حضرت مرقد سالی والے سال حضرت عباس کے وسیلے سے دعا کیا کرتے تھے ، پوری حدیث ذکر کی ، اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمررضي الله تعالی عنه نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس رضى الله تعالى عنه کو دو درجہ دیے جو بیٹا باپ کودیا کرتا ہے۔ اے لوگو! نبی صلی الله علیہ وسلم کے چچاعباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں رسول صلی الله علیہ وسلم کی اقتدا کرو اور ان کی طرف وسیلہ بناو۔(نیل الاوطار ،شرح منتقی الاخبارللشوكاني، كتاب الاستسقاء، كتاب الاستيقاظ بدوي الصباح ج٤ ص٨ ،مصطفى البالى الحلي ،مصر)

7) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” الدعا مخ العباده

( رواه الترمذي كتاب الدعوات ج١ ص ١٩٤)

کتب فقہ کے حوالے:

1) يراد بالحق الحرمة والعظمة ، فيكون من باب الوسيلة وقد قال تعالى “واتبعوا إليه الوسيلة ” وقد عد من آداب الدعاء التوسل على ما في الحصن .

وقال بعد اسطر : نعم ذكر العلامة المناوي في حديث .

اللهم اني اسلك واتوجه إليك نبيك نبي الرحمة ، عن العزف بن عبد السلام انه ينبغي كونه مقصورا” على النبي صلى الله عليه وسلم .

وقال السكي بحسن التوسل بالنبي الى ربه ولم ينكره احد من السلف ولا الخلف الا ابن تيميه فابتدع ما لم يقله عالم قبله ا ه‍…..ونازع العلامة ابن امير حاجة في دعوى الخصوصية واطال الكلام على ذلك

( فتاوى شاميه ج٦ ص٣٩٧ طبع سعيد)

اردو فتاویٰ کے حوالے :

1) وسیلہ” ہر وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی ذات تک رسائی یا قرب حاصل کیا جا سکتا ہو۔

( الصحاح تاج اللغه و صحاح العربية ، باب اللام،.فصل واؤ ، مادة وسل ، ج٥ ص ١٨٤ ، دار العلم الملابين ، بيروت )

2) متوسل بہ:- ( یعنی جس کے واسطے سے دعا مانگی جاۓ) کبھی عمل صالح ہوتا ہے، کبھی کوئی زندہ یا مردہ خدا کا بر گزیدہ ہوتا ہے۔یہ تینوں طرح کے وسیلے شرعا” جائز ہیں ۔

( المہند علی المفتد: ص٢٩ )

والله اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں