” یا نبی سلام علیک” کہنے کا حکم

سوال:حضرت مفتی صاحب! کیا ہم یانبي سلام علیک پڑھ سکتے ہیں؟ 

ام فاطمہ

الجواب حامدۃ و مصلیۃ

“یا نبی سلام علیک” کہنا بعض صورتوں میں جائز اور بعض صورتوں میں نا جائز ہے، بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روضہ مبارک میں حیات ہیں ،قبر شریف کے پاس جو درود و سلام پڑھا جاتا ہے وہ آپ خود سنتے ہیں اور کسی دور دراز مقام سے جو درود و سلام بھیجا جاتا ہے وہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب دیتے ہیں لہذا اس عقیدے کے ساتھ اگر کوئی “یا نبی سلام علیک” کے الفاظ سے سلام پیش کرے تو جائز ہے چاہے روضہ مبارک کے قریب ہو یا دور، اسی لیے نماز میں بھی “السلام علیک ایھا النبی” کہہ کر سلام پہنچایا جاتا ہے ،اسی طرح اگر کوئی شخص جوش محبت میں، شدت غم میں یا تخیل کے طور پر شاعرانہ خطاب میں ان الفاظ سے سلام پیش کرے تو جائز ہے جب کہ یہ عقیدہ نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں- لیکن اگر قبر شریف سے دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر سمجھتے ہوئے ان الفاظ سے سلام پیش کیا جائے تو یہ شرک اور ناجائز ہے، اسی طرح اگر کہنے والے کا عقیدہ تو درست ہو لیکن سننے والوں کا عقیدہ بگڑنے کا اندیشہ ہو تو ایسی جگہ بھی ان الفاظ کے ساتھ سلام پیش کرنا نا جائز ہے-

“من صلی علی عند قبری سمعتہ و من صلی نائیا ابلغتہ”

“ان للہ ملائکۃ سیاحین فی الارض یبلغونی من امتی السلام”

مشکوۃ المصابیح(86،87)

عن ابن مسعود قال رجلٌ يا رسول الله أي الذنب أكبر عند الله؟ قال أن تدعو لله ندًّا وهو خلَقك

الصحیح البخاری( حدیث:4207)

الصحیح المسلم( حدیث:86)

“من قال ارواح المشائخ حاضرۃ یکفر”

فتاوی بزازیہ(3-326) 

واللہ الموفق

اہلیہ محمود الحسن

صفہ آن لائن کورسز

10-11-2017

اپنا تبصرہ بھیجیں