یکطرفہ عدالتی کارروائی کا حکم

فتویٰ نمبر:4092

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

سوال:السلام علیکم 

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لڑکے لڑکی کی شادی ہوئی لڑکی بہت کم عرصہ خاوند کے پاس رہی لڑکی کا والد جو کہ ریٹائر فوجی ہے اپنے داماد کے گھر میں آکے اس کی والدہ کے ساتھ شدید قسم کی لڑائی جھگڑا کرکے گیا داماد بھی اسی مجلس میں موجود تھا دس پندرہ منٹ تک سسر مسلسل جھگڑا کرتا رہا لڑکے نے خاموش کروا کر یہ پوچھا کہ مجھے دو باتیں بتائیں ایک آپنے جو بھی مسئلہ ہوا ہے اس میں مجھے کبھی بھی اعتماد میں نہیں لیا جیسا کہ ابھی تازہ ترین صورت حال ہے دوسرا آپ جس انداز سے میری والدہ سے بات کررہے ہیں یہ انتہائی غیر مناسب ہے سسر صاحب بات ماننے میں نہیں آئے بہرحال جھگڑا ہوا سسر نے بعد میں فون پر معافی تلافی کی لڑکے نے بھی معافی تلافی کی لڑکے نے سمجھا کہ جھگڑا ختم ہوگیا ہے اس جھگڑے کے سات دن بعد سسر صاحب آکر اپنی بیٹی کو لے گئے کہ یہ کچھ دن ہمارے یہاں رہ لے لڑکے نے کہا ٹھیک ہے کوئی بات نہیں اس وقت سے لے کر آج تک اس نے بیٹی کو اپنے گھر میں بٹھائے رکھا ہوا ہے لڑکی بامشکل 15 سے 17 دن اپنے خاوند کے پاس رہی تھی اور لڑکی کا والد لڑکے والوں سے مسلسل طلاق کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن لڑکے نے آج تک طلاق کا لفظ بھی منہ پر نہیں لے کر آیا لڑکا عالم ہے اب کیا ہوا جب سسرال والوں نے طلاق کا مطالبہ کیا لڑکے والوں نے طلاق نہیں دی تو سسر نے عدالت سے یکطرفہ خلع اور تنسیخ نکاح کا فیصلہ لے لیا سسر نے یہ کیا کہ عدالت کی طرف سے کوئی سمن نوٹس لڑکے اور لڑکے کے گھر والوں کو نہیں آیا اور نہ ہی ملا عدالت نے تنسیخ نکاح کا فیصلہ کردیا ڈگری پاس کر دی ہے اس صورت میں نکاح کا حکم بتائیں کہ طلاق ہوگئی ہے یا نہیں جبکہ لڑکے نے بالکل ایک طلاق بھی نہیں دی کوئی طلاق بھی نہیں دی اس کا مفصل حکم بتائیں باقاعدہ تحریری شکل میں فتوی مطلوب ہے۔

المستفتی محمد محسن

(عدالتی کارروائی کی کاپی منسلک ہے)

والسلام

الجواب حامداو مصليا

خلع کے لیے شرعا شوہر کی رضامندی ضروری ہے بغیر شوہر کی رضامندی کے یکطرفہ خلع معتبر نہیں البتہ اگر فسخ نکاح کی کوئی شرعی بنیاد موجود ہوتو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر شوہر نے عدالت میں حاضر ہوکر ان تمام الزامات کا انکار کردیا تھا اور عورت کادعویٰ ثابت نہیں ہو سکا اس کے باوجود عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کردی تو اس صورت میں بھی یہ فیصلہ معتبر نہیں اور اگر شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوا جبکہ عدالت نے اسے سمن جاری کیا تھا یا عدالت کی طرف سے کسی قسم کا کوئی سمن جاری نہیں ہوا تو بھی عدالت کا فیصلہ معتبر نہیں۔

عرض یہ ہے کہ منسلکہ عدالتی فیصلہ ائمہ اربعہ کے مذہب کے مطابق قرآن وسنت کی روسے شوہر کی رضامندی پر موقوف ہے ،کیونکہ اس فیصلے میں خلع کا حکم صادر کیا گیا ہے ،اور خلع باجماع امت زوجین کا ایک معاملہ ہے ، جو باہمی رضامندی پر موقوف ہوتا ہے ، لہٰذا اگر شوہر خلع کرنے پر راضی ہو تو خلع کرے اس صورت میں عورت کا نکاح اس سے ختم ہوجائے گا ، اور اگر وہ خلع پر راضی نہ ہوتو شرعاً اس کو عورت کو علیحدہ کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ، البتہ چونکہ نوبت ایسی مقدمہ بازی تک پہنچ چکی ہے اس لئے شوہر کے لیے بہتری یہی ہے کہ وہ خلع کو منظور کرکے بیوی کو الگ کردے ۔(فتاوی عثمانی:ج ٢)

لو ادعت الخلع لا یقع بدعواہا شيء ؛ لأنہا لا تملک الإیقاع ۔ ( شامي ، کتاب الطلاق / باب الخلع ۵ ؍ ۱۰۲ زکریا )

وأما رکنہ فہو الإیجاب والقبول لأنہ عقد علی الطلاق بعوض فلا تقع الفرقۃ ولا یستحق العوض بدون القبول ۔ (بدائع الصنائع، کتاب الطلاق، فصل فی رکن الخلع، زکریا ۳/۲۲۹، کراچی ۳/۱۴۵، شامی کراچی ۳/۴۴۱، زکریا ۵/۸۸، تاتارخانیۃ ۵/۵، رقم: ۷۰۷۱، مبسوط للسرخسی، دار الکبت العلمیۃ بیروت ۶/۱۷۳)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:٢٥شعبان١٤٤٠

عیسوی تاریخ:٢مئی٢٠١٩

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

‏https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

‏https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

‏www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

‏https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں