زوجة متعنت كا حكم

فتویٰ نمبر:860

محترم جناب مفتیان کرام!

فاطمہ نے شادی کے اگلے دن سے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی جب اس نے خلع کا مطالبہ کیا شوہر فرار ہوگیا اب تک غاٸب ہے شادی کو تقریبا ١٠ سال ہوگئے ہیں اب فاطمہ عدالت سے طلاق لے سکتی ہے یا زندگی بھر بیٹھی رہے اس کی زندگی برباد ہوگٸی شریعت میں ان کی خلاصی کی کوئی صورت ہے؟

والسلام

الجواب حامدۃو مصلية

مذکورہ صورت میں عورت کی خلاصی کی صورت یہی ہے کہ یہ کسی مسلمان حاکم کی عدالت میں نان نفقہ نہ ہونے اور مبتلا بالمعصیہ کےخوف سے فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرے،عدالت شوہر کو عدالت میں پیش ہونے پر مجبور کرے اگر ثابت ہو جائے کہ وہ نہیں آتا تو عدالت شوہر کی طرف سے اس کو طلاق دے دے اس کے بعد عورت عدت طلاق گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے اگر عدالت مذکورہ بالا کارروائی کرلے تو اس کا فیصلہ نافذ ہوگا

البتہ دعویٰ دائر کرنے میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ خلع یا شوہر کے لاپتا ہونے کا دعویٰ نہ ہو بلکہ شوہر پر نان نفقہ ادا نہ کرنے کا دعویٰ ہو اور جج اپنے فیصلے میں بھی اسی کو مدار بنائے البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کے الفاظ استعمال کیے تو فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر مانا جائے گاکیونکہ خلع اور لاپتا اشخاص کے متعلق عدالتیں جو فیصلہ کر رہی ہیں ان میں شرعی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔

شرعاً فیصلہ معتبر ہونے کی صورت میں عدت کا اعتبار فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے ہوگا۔[ج:۶،ص:۵۱۷]۔

فی المغنی لابن قدامۃ: فان امتنع ( المدعی علیہ) من الحضور أو تواریٰ فظاہر کلام أحمد : جواز القضاء علیہ لما ذکرنا عنہ فی روایۃ حرب ، وروی عنہ أبو طالب فی رجل وجد غلامہ عند رجل فأقام البینۃ أنہ غلامہ فقال الذی عندہ الغلام : أو دعنی ھذا رجل ، فقال أحمد : أھل المدینۃ یقضون علی الغائب یقولون : انہ لھذا الذی أقام البینۃ وھو مذہب حسن وأھل البصرۃ یقضون علی غائب یسمونہ الاعذار وھو اذا ادعی علی رجل الفا وأقام البینۃ فاختفیٰ المدعیٰ علیہ یرسل الی بابہ فینادی الرسول ثلٰثا فان کاء والا قد اعذروا الیہ ، فھذا یقوی قول أھل المدینۃ وھو معنی حسن قد ذکر الشریف أب وجعفر وأبو الخطاب أنہ یقضی علی الغائب الممتنع وھو مذہب الشافعی ، لأنہ تعذر حضورہ و سؤالہ فجاز القضاء علیہ کالغائب البعید ، بل ھذا أولیٰ لأن البعید معذور وھذا لا عذر لہ اھــ[ج:۹،ص:۱۱۱]

وفی الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف : فان امتنع من الحضور سمعت البینۃ وحکم بھا فی احدی الروایتین وھو المذہب اھــ[ج:۱۱،ص:۳۰۲]۔

وفی الحاوی الکبیر للعلامۃ الماوردی رحمہ اللہ : فان قال المدعی : لیست لی بینۃ ، فقد اختلف اصحابنا ، ھل یکون ھذا الامتناع من الحضور کالنکول فی رد الیمین علی المدعی أم لا ؟ علی وجھین: احدھما : أنہ لا یجعل نکولا ۔۔۔ والوجہ الثانی : وھو أشبہ أن یجعل کالنکول بعد النداء علی بابہ بمبلغ الدعوی و اعلامہ بأنہ یحکم علیہ بالنکول لوجود شرطی النکول فی ھذا النداء اھــ [ج:۱۶،ص:۳۰۲]۔ 

وفی المبدع : وان نکل قضی علیہ بالنکول نص علیہ واختارہ عامۃ شیوخنا اھــ

[ج:۱۰،ص:۶۴]

وفی الانصاف : ھو المذ ھب ۔[ج:۱۱،ص:۲۵۴]۔

وفی الفقۃ الاسلامی وأدلتہ : لکن المختار عند الحنابلۃ القول بعدم رد الیمین

(ج:١٦،ص:٣٠٢)

وفی المغنی لابن قدامۃ : وان قال المدعی : لا أرید اقامتھا (البینۃ) وانما أرید یمینہ اکتفی بھا استحلف لأن البینۃ حقہ فاذا رضی باسقاطھا وترک اقامتھا فلہ ذٰلک کنفںس الحق اھـ [ج:۹،ص:۸۹]۔ کذا فی الانصاف [ج:۱۱،ص:۲۶۳]والمبدع [ج:۱۰،ص:۶۷] و روضۃ الطالبین [ج:۲،ص:۴۰] و زاد المحتاج [ج:۴،ص:۵۴۱]۔

وفی البدائع : حتی لو قال المدعی : لی بینۃ حاضرۃ ثم أراد أن یحلف المدعی علیہ لیس لہ ذٰلک عندہ ، وعندھما لہ ذٰلک اھــ [ج:۶،ص:۲۲۶]۔

مستفاد: فتاوی عثمانی ج٢

و اللہ سبحانہ اعلم

بقلم:بنت سعید الرحمن 

قمری تاریخ:٣٠ذى الحجه١٤٣٩

عیسوی تاریخ:١٠ستمبر٢٠١٨

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

➖➖➖➖➖➖➖➖

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

📩فیس بک:👇

https://m.facebook.com/suffah1/

====================

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇

https://twitter.com/SUFFAHPK

===================

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

===================

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں