انبیاء کرام کے ساتھ علیہ السلام اور صحابہ کرام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھنے کی شرعی حیثیت

سوال: السلام عليكم 

انبیاء کرام کے ساتھ علیہ السلام اور صحابہ کرام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کا لقب لگایا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ 

جواب : وعلیکم السلام!

“علیہ السلام ” کا استعمال اصلاً انبیاء کرام کے ساتھ مخصوص ہے، اس لیے اسے انبیاء کرام کے لئے ہی استعمال کرناچاہیے، البتہ ضمنا دیگر حضرات کاتذکرہ ہو تو ان کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ مثلا انبیاء اور صحابہ کرام کا تذکرہ ہو اور پھر سب کے لیے علیہم السلام کہا جائے تو درست ہے۔

مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ احسن الفتاویٰ میں لکھتے ہیں:

”لفظ علیہ الصلاۃ والسلام”انبیاء وملائکہ علیہم الصلاۃ والسلام کے ساتھ خاص ہے، غیرانبیاء کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں؛ لہذا حسین علیہ الصلاۃ والسلام یا علی علیہ الصلاۃ والسلام کہنا جائز نہیں۔ البتہ تبعاً استعمال کرنا جائز ہے، یعنی کسی نبی کے نام کے بعد آل نبی یا صلحاء کا ذکر آجائے تو سب کے لیے علیہم الصلاۃ والسلام کہناجائزہے”۔

(احسن الفتاویٰ 9/35،ط:سعید)

مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ علیہ السلام لکھنے کو شعار شیعہ واہل بدعت فرمایا ہے، اس لیے وہ منع فرماتے ہیں”۔

(فتاوی محمودیہ: 19/145،فاروقیہ)

ملاعلی قاری رحمہ اللہ کی عبارت مندرجہ ذیل ہے:

”أن قولہ ”علی علیہ السلام”من شعار أھل البدعۃ، فلا یستحسن فی مقام المرام”۔

(فقہ اکبرص:167،ط:قدیمی)

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”اہل سنت والجماعت کے یہاں ”صلی اللہ علیہ وسلم”اور”علیہ السلام” انبیائے کرام کے لیے لکھاجاتاہے، صحابہ کے لیے ”رضی اللہ عنہ” لکھنا چاہیئے، حضرت علی کے نامِ نامی پر ”کرم اللہ وجہہ” بھی لکھتے ہیں”۔

(آپ کے مسائل اوران کاحل1/202،لدھیانوی)

“رضی اللہ عنہ” ایک دعائیہ کلمہ ہے جس کے معنی ہیں “اللہ ان سے راضی ہوجائے”۔ عرف کے اعتبار سے یہ کلمہ صحابہ کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن اپنے دعائیہ مفہوم کے اعتبار سے غیر صحابی کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے؛ بشرطیکہ التباس لازم نہ آتا ہو۔

قرآن کریم کی “سورۃ بینہ” نیکو کار مومنین کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے:

“رضی اللہ عنھم ورضوا عنه”

(سورة البينة: 8)

 آج کل عوام الناس اس کلمے کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی ساتھ خاص سمجھتے ہیں اور ان کا دھیان اس جملے سے صحابہ کی طرف جاتا ہے اس لیے ان کے سامنے غیر صحابی کے لیے اس جملے کے استعمال سے گریز اچھا ہے، تاہم اگر کوئی شخص تابعی یا کسی ولی کے نام کے ساتھ “رضی اللہ عنہ” کہہ دے یا لکھ دے، تو شرعا اس کی بھی گنجائش ہے۔

“ویستحب الترضي للصحابة، وکذا من اختلف في نبوته کذي القرنین ولقمان، والترحم للتابعین ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخیار، وکذا یجوز عکسه الترحم للصحابة والترضي للتابعین ومن بعدهم علی الراجح (الدر المختار) قولہ: ویستحب الترضي للصحابة: لأنہم کانوا یبالغون في طلب الرضاء من اللّٰہ تعالیٰ، ویجتہدون في فعل ما یرضیه، ویرضون بما یلحقہم من الابتلاء من جہته أشد الرضا، فہٰوٴلاء أحق بالرضا، وغیرهم لا یحلق أدناهم، ولو أنفق ملء الأرض ذهبًا”.

(الدر المختار مع الشامي، کتاب الخنثیٰ / مسائل شتی ۱۰/۴۸۵زکریا، ۶/۷۵۴کراچی)

فقط واللہ سبحانہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں