زکوٰۃ کب ادا کی جائے؟

اگر کسی بچی کی ملکیت میں بلوغت سے پہلے سونا تھا توبالغ ہونے کے بعد سال گزرنے کا انتظار کیا جائے گا یا فوری طور پر زکوۃ دی جاے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

اگر کسی عاقلہ بالغہ کے پاس حاجات اصلیہ کے علاوہ نصاب کے بقدر

ما ل ضروریات اصلیہ سے زائد ہو اور اس مال پر پورا سال گذر جائے تو اس پر زکوٰة فرض ہے۔ نصاب کا مال پورا ہوتے ہی زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی بلکہ ایک سال تک وہ نصاب مِلکیت میں باقی رہے تو سال پورا ہونے کے بعد اس پرزکوٰۃ نکالنا فرض ہو گا۔

—————————————————————————-

” بچے کے بالغ ہونے کے بعد سال گزرنے پر زکاۃ فقط ایک سال ہی کی زکاۃ نکالنالازم ہوگی ، بشرطیکہ سونا نصاب کے برابر ہو۔گزشتہ سالوں (یعنی نابالغی کی مدت میں جتنے سال اس کے قبضے میں وہ سونارہاان سالوں)کی زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔”

فتوی نمبر : 144004200837

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

” “وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان”.

{ الفتاوى الهندية (1/ 191)

واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں