1۔ جب مسلمان کسی مجلس میں، کسی اجتماعی معاملہ میں غورو فکر کرنے یا عمل کرنے کے لیے جمع ہوئے ہوں تو جب ایسی مجلس سے جانا ہو امیر مجلس سے اجازت لے کر جائیں، کم از کم یہ مستحب کا درجہ رکھتا ہے۔ (معارف القرآن)
(٢) جس مجلس میں شرع کوئی کام یا کوئی بات ہورہی ہو تو ایسی مجلس میں بیٹھنا، شریک ہونا جائز نہیں۔ (قرآن حکیم)
(٣) دنیا کی باتیں کرنے اور خرید و فروخت کے لیے مسجد میں مجلس قائم کرنا منع اور گناہ ہے۔
(فتاویٰ ہندیہ)
(٤) بے ضرورت لب سڑک بیٹھنا، مجلس آرائی کرنا منع ہے۔ (تعلیم الدین)
(٥) کسی کے پاس جانا ہو تو سلام سے یا روبرو بیٹھنے سے، غرض کسی طرح سے اس کو اپنے آنے کی خبر کردے اور اطلاع کے بغیر آڑ میں ایسی جگہ مت بیٹھیں کہ اس کو آپ کے آنے کی خبر نہ ہو۔ کیونکہ شاید وہ کوئی ایسی بات کرنا چاہے جس پر آپ کو مطلع نہ کرنا چاہے تو اس کی رضامندی کے بغیر اس کے راز پر مطلع ہونا بری بات ہے۔ ایسے موقع پر یہ اہتمام کرنا چاہےے فوراً وہاں سے دور ہوجائیں یا اگر آپ کو سوتا سمجھ کر کوئی ایسی بات کرنے لگے تو فوراً اپنا بیدار ہونا ظاہر کردیں۔ البتہ اگر آپ کی یا کسی اور مسلمان کی ضرر رسانی کی کوئی بات ہو تو اس کو ہر طرح سے سن لینا درست ہے تاکہ اس نقصان سے حفاظت ممکن ہو۔
(٦) کسی کے پاس بیٹھیں تو نہ اس قدر مل کر بیٹھیں کہ اس کا دل گھبرائے اور نہ اس قدر فاصلہ سے بیٹھیں کہ بات چیت کرنے میں تکلیف ہو۔
(٧) مشغول آدمی کے پاس بیٹھ کر اس کو گھوریں نہیں! اس سے دل بٹتا ہے اور دل پر بوجھ معلوم ہوتا ہے بلکہ خود اس کی طرف متوجہ ہوکر بھی مت بیٹھیں۔
تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ کام کرنے والے آدمی کے پاس بلا ضرورت بے کار آدمی کا بیٹھنا اس کے قلب کو مشغول کرتا ہے خاص کر جب اس کے پاس بیٹھ کر اس کو تکتا بھی رہے۔
(٨) اگر کسی سے ملنے جائیں تو وہاں اتنا مت بیٹھیں یا اس سے اتنی باتیں مت کریں کہ وہ تنگ ہوجائے یا اس کے کسی کام میں حرج ہونے لگے۔
(٩) جہاں اور آدمی بیٹھے ہوں وہاں بیٹھ کر تھوکیں مت، ناک صاف مت کریں ضرورت ہو تو ایک کنارے جا کر فراغت کر آئیں۔
(١٠) انسان کے اندر اﷲ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ دوسرے انسان کے خیالات اور حالات سے بہت جلد اور بہت قوت کے ساتھ اور بغیر کسی خاص کوشش کے اثر قبول کر لیتا ہے۔ اچھا اثر بھی اور برا اثر بھی۔ اس لیےاچھے لوگوں کی مجلس بہت بڑے فائدے کی چیز ہے اور اسی طرح بری صحبت بہت بڑے نقصان کی چیز ہے۔
(حیات المسلمین ص : ١٤٤)
(١١) جب مجلس جمی ہوئی ہو اور کوئی گفتگو ہورہی تو سلام کرنا چاہے نہ مصافحہ کرنا چاہے، بعض لوگ بیچ میں السلام علیکم کہہ کر لٹھ سا ماردیتے ہیں اور پھر ایک طرف سے مصافحہ کرنا شروع کردیتے ہیں جس سے گفتگو کا سارا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اور تمام مجمع پریشان ہوجاتا ہے۔ یہ آدابِ مجلس کے خلاف ہے۔ (کمالات اشرفیہ جزو اول ص : ١٥٢)
(١٢) کسی مجمع میں جاتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھیے:
١۔ کھل کر بیٹھیے۔ ٢۔ بھڑ کر نہ بیٹھیے ۔
٣۔ اگر پہلے جائیں تو آگے بیٹھیے پیچھے نہیں۔ آگے جگہ نہ ہو تو پیچھے جہاں جگہ ملے بیٹھ جائیں آگے جانے کی کوشش نہ کریں، جمعہ کے روز اگر مسجد میں جائیں تو اگر آگے جگہ نہ ہو تو جہاں جگہ پائیں بیٹھ جائیں، لوگوں کی گردنیں پھاند کر آگے نہ جائیں! حدیث میں سخت وعید ہے کہ” ایسا شخص جہنم کا پل بنایا جائے گا تاکہ لوگ اسے روندیں۔” اور اس میں چار گناہ ہیں: ایذائے مسلم تکبر، تحقیر مسلم ، ریاکاری کہ میں بڑا نمازی ہوں کہ پہلی صف میں پہنچتا ہوں ۔ان میں سے ہر ایک سخت جرم ہے لہٰذا اس سے بہت پرہیز کریں۔”
(رحمتہ المتعلمین ص :٨٣)
(١٣) ایک صاحب مجلس میں بہت ہی زیادہ ادب کی صورت بنائے بیٹھے تھے۔ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے دیکھ کر فرمایا کہ آپ جس ہیئت سے بیٹھے ہیں اور بھی کوئی اس طرح بیٹھا ہے یا آپ ہی پر سب سے زیادہ ادب کا غلبہ ہے۔ مجھ کو اس ہیئت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مجھ کو بتاتے ہیں۔ آدمی کو کچھ تو عقل سے کام لینا چاہے۔ مجھے ایسی نشست سے تنگی ہوتی ہے کہ ایک مسلمان بندھا ہوا بیٹھا ہے۔ صحابہ کرام ؓ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں نہایت ہی بے تکلفی کے ساتھ رہتے تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بے ادب بنو۔ ادب نہایت ضروری چیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تکلف نہ ہو۔ ادب اور چیز ہے اور اصل ادب نام ہے راحت رسانی کا، ادب کہتے ہیں حفظ حدود (حقوق کی رعایت کرنے) کو، اور یہ بڑوں کے لےہی نہیں، بلکہ چھوٹوں کے لےبھی حدود اور حقوق ہیں۔
(١٥) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کی مجلس میں ایک صاحب اس طرح بیٹھے تھے کہ تمام منہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا حضرت والا نے دیکھ کر فرمایا یہ چوروں کی طرح یا جیسے سی ، آئی ، ڈی ہوتا ہے اس طرح کیوں بیٹھے ہو، کیا مجلس میں بیٹھنے کا یہی طریقہ ہے؟ آخر یہ عورتوں کا سا گھونگٹ کیوں نکال رکھا ہے؟ اگر کوئی خاص وجہ ہے تو اس کو بیان کرو تاکہ معلوم ہو۔