قرآن کریم میں رمضان المبارک کو” ماہ قرآن” کہاگیا ہے حضور ﷺ نےا س ماہ کو “عظیم ” “مبارک” اور ماہ برکت کا لقب عطا کیا ہے اورا سے “صبر” ” غم خواری ” اور “مومن کے رزق ” کا مہینہ قرار دیا ہے۔احادیث کے مطابق ” ماہ رمضان” کو سال کے بقیہ گیارہ مہینوں پر کئی فضیلتیں حاصل ہیں : یہ فرض روزوں کا مہینہ ہے ۔ اس کے ہر دن اللہ جل شانہ جنت کو سجنے کا حکم دیتے ہیں ۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں جو رمضان کی آخری رات تک کھلے رہتے ہیں ۔ سرکش شیاطین کو قید کردیاجاتا ہے ۔ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر فرضوں کے کے برابر کردیاجاتا ہے۔ ہر دن کوئی ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور ہر روز بے شمار گناہ گار نار جہنم سے بخشش اور آزادی کا انعام پاتے ہیں ۔ (الترغیب والترتیب )
ایسے قد آور مہینے میں حضور سید الرسل ﷺ کے معمولات کیاتھے ؟
آئندہ سطور میں اس پر مختصر اً روشنی ڈالی گئی ہے:
٭ حضور نبی ﷺ رمضان سے دو ماہ قبل یعنی رجب سے ہی ماہ مبارک کی آمد کی دعائیں شروع فرمادیتے تھے” مجمع الزوائد” کی روایت کے مطابق حضور ﷺ یوں دعا فرماتے : الیھم بارک لنا فی رجب وشعبان ‘ و بلغنا رمضان ” ( اے اللہ ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمارے لیے برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچادے !) اس روایت سے رمضان سے پہلے رمضان کی تیاری کرنے اور نیک کاموں کی سعادت حاصل کرنے کے لیے درازی عمر کی دعا کرنے کا ثبوت بھی ملتا ہے ۔
٭ شعبان کی آخری تاریخ کو حضور ﷺ صحابہ کرام کو اہتمام سے جمع کر کے ان کے سامنے رمضان کی اہمیت وفضیلت رمضان کے خصوصی اعمال اور ان کے فضائل خطاب کی صورت میں بیان کرتے تھے ۔ یہ حدیث صحیح ابن خزیمہ اور بیہقی وغیرہ میں موجود ہے ۔
٭ حضور سیدالکونین ﷺ ماہ مبارک کا چاند دیکھنے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور جب تک خود چاند نہ دیکھ لیتے یا کوئی عینی گواہ چاند دیکھنے کی صحیح صحیح گواہی نہ دیتا اس وقت تک رمضان المبارک کا اعلان نہ فرماتے ۔ اگر چاند نظر نہ آتا یا مطلع ابر آلود ہوتا تو رمضان کا اعلان نہ فرماتے اور شعبان کے تیس دن پورے فرماتے ۔ ( زاد المعاد)
رویت ہلال سے متعلق روایات غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے:
(1) “چاند کا فیصلہ ” سائنسی آنکھ کی بجائے انسانی آنکھ سے کیاجائے گا ۔
(2) اگر مطلع ابر آلود ہو تو صرف ایک ثقہ آدمی کی شہادت ( جبکہ وہ صحیح شہادت دے) سے بھی چاند نظر آجانے کا اعلان کردیاجائے گا۔ آپﷺ نے ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی گوہی پرا ور ایک موقع پر صرف ایک اعرابی کی گواہی پر چاند نظر آنے کا اعلان فرمایا ہے ۔( زادالمعاد )
٭ حضور نبی اکرم ﷺ دیگر مہینوں کے مقابلے میںرمضان المبارک میں عبادتوں کااہتمام فرماتے تھے ۔اس ماہ نوافل ، ذکر وتلاوت اور صدقہ وخیرات میں کثرت ہوجاتے تھی ۔ جبرئیل امین علیہ السلام کے ساتھ قرآن کااعادہ اسی ماہ ہوا کرتا تھا۔ ہر سال ایک بار قرآن کا اعادہ ہوتا تھا، حیات طیبہ کے آخری سال دو بار قرآن کا اعادہ ہوتا تھا، حیات طیبہ کے آخری سال دوبار قرآن کا اعادہ کیا گیا۔ ( بخاری ومسلم )
٭ رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں ۔ حضور ﷺ رمضان المبارک کے تمام روزے رکھتے تھے ۔ جو شخص رمضان المبارک کا روزہ بلا شرعی چھوڑدے احادیث میں ایسے شخص کے لیے جہنم کے سخت عذابوں کا ذکر آیا ہے ۔ حضور ﷺ سے منقول روزے کی اہمیت وفضیلت کا خلاصہ یہ ہے :
” رمضان المبارک کے روزے اللہ جل شانہ نے فرض قرار دیے ہیں ۔ جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت رمضان کے روزے رکھے اور روزے کے دوران گناہوں سے بھی بچے اس کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔
روزہ بدن کی زکوٰۃ ہے ۔
روزہ دار کے لیے فرشتے اور سمندر کی مچھلیاں تک دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
ہر سجدہ کے بدلے میں جنت میں ایک ایسا درخت عطا کیاجاتاہے جس کے سایے میں سوار500 سا تک چل سکتا ہے ۔
روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ۔ حضور ﷺ اور جبرئیل علیہ السلام امین نے اس شخص کے خلاف ہلاکت کی بددعا فرمائی ہے جو رمضان کے مہینے میں بھی اپنی مغفرت نہ کرواسکے ۔
جو شخص رمضان کا ایک روزہ بلا عذر چھوڑدے تو زندگی بھر کے روزے اس کی تلافی نہیں کرسکتے ۔” ( الترغیب والترہیب)
٭ حضور ﷺ روزہ کے لیے خود بھی سحری فرماتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بھی سحری کھانے کی ترغیب دیتے تھے۔
حضور ﷺ سحری تاخیر سے فرماتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی تاخیر سے سحری کرنے کی ترغیب دیتے تھے ۔ (بخاری مسلم) اور فرماتے تھے کہ :سحری کا کھانا” مبارک غذا” ہے (صحیح ابن حبان)
سحری کے کھانے کا حساب نہیں لیاجائے گا۔ ( طبرانی ، بزار)
ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری ہے۔ ( مسلم)
سحری کیا کرو! کیونکہ سحری میں برکت ہے۔ ( بخاری )
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر درود بھیجتے ہیں ( طبرانی ، ابن حبان )
٭ حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول غروب آفتاب کا یقین ہوجانے کے فورا بعد افطاری کرنے کا تھا ۔ آپ ﷺ خود بھی جلدی افطاری فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بھی غروب آفتاب کے بعد فورا افطاری کرنے کی تلقین فرماتے تھے ۔ اور فرماتے تھے :” مسلمان اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک وہ روزہ افطاری میں جلدی کریں گے ۔ ” ( بخاری ) “افطاری میں تاخیر یہود ونصاریٰ کی عادت ہے ۔” حضور ﷺ سے افطاری کے یہ آداب منقول ہیں:
(الف) افطاری سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی جائے کیونکہ یہ دعا قبول ہوتی ہے ۔
(ب) غروب آفتاب کا یقین ہوتے ہی افطاری کر لی جائے ۔ تاخیر نہ کی جائے ۔
(ج) کھجوروں سے روزہ افطار کیاجائے اگر کھجور نہ ہو تو چھواروں سے ورنہ پانی سے سنت افطاری کی جائے ۔
(د) مغرب کی نماز سے پہلے افطاری کی جائے ۔
(ہ) افطاری شروع کرتے وقت یہ دعا پڑھی جائے : اللھم لک صمت وبک امنت وعلی رزقک افطرت ( ابو داؤد ) ( وبک امنت وعلیک توکلت کے الفاظ ثابت نہیں ) اور افطاری کے بعد یہ دعا پڑھی جائے : ذھب الظما وابتلت العروق وثبت الاجران شاء اللہ ۔ (ا بو داؤد )
٭حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ” رمضان غم خواری کا مہینہ ہے۔”
جس کا مطلب یہ ہے کہ صاحب حیثیت مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس مہینے میں غربا اور محتاجوں کی خصوصی طور پر کفالت کریں ! ان کے سحر وافطار کا انتظام کریں اورا پنے صدقات اور زکوٰۃ سے ان کی مالی اعانت کریں ! حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ” جو شخص ماہ رمضان میں روزہ دار کو افطاری کرائے تو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے اس کی آزادی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔” ( صحیح ابن خزیمہ بیہقی)
” روزہ افطار کرانے والے شخص کو اس روزہ دار کے روزے کا ثواب بھی ملتا ہے جس کو وہ روزہ افطار کرواتا ہے ۔ جس کو روزہ افطار کروایا ہے اس کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں آتی” ( بیہقی)
٭ رمضان المبارک کی راتوں میں قیام( یعنی تراویح پڑھنا ) سنت موکدہ ہے ۔ بخاری کی روایت کے مطابق حضور ﷺ نے چار دن مسلسل تراویح کی نماز پڑھی ہے۔لیکن پھر اس خوف سے پڑھنا چھوڑدی کہ کہیں امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے فرض قرار نہ دیدیاجائے ۔ اس روایت میں تراویح کی تعداد کا ذکر نہیں ۔ طبرانی ، مجمع الزوائد ، ابن ابی شیبہ اور بیہقی کی ایک کمزور روایت میں آپ ﷺ سے بیس رکعات تراویح پڑھنے کا ذکر آیا ہے
لیکن چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سور سے آج تک امت کا بیس رکعات تراویح پڑھنے کا ذکر آیا ہے ۔ لیکن چونکہ حضرت عمر کے دور سے آج تک امت کا بیس رکعات تراویح پر عمل چلا آرہا ہے نیز حضور ﷺ نے خلفائے راشدین کے طریقے پر عمل لازم قرار دیا ہے ( ابو داؤد ،ابن ماجہ ) اور جس طرف اہل علم کی اکثریت ہو اس کی اتباع کی تلقین کی ہے اس لیے جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک رمضان کی تمام راتوں میں تراویح کی 20 سنت موکدہ ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے: ” جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرے اس کے افلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ ” ( بخاری ومسلم ، ابو داؤد ، ترمذی)
ایک اور روایت میں ہے کہ ” رمضان کی رات میں نفل نماز ( جس میں تراویح بھی شامل ہے) کے ایک سجدہ پر 2500 نیکیاں ملتی ہیں ۔ ” (الترغیب والترہیب ) 20 رکعت تراویح پڑھنے والوں کو حدیث کے مطابق روزانہ 50 ہزار نیکیاں ملتی ہٰں ۔” (الترغیب والترہیب ) 20 رکعت تراویح پڑھنے والوں کو حدیث کے مطابق روزانہ 50 ہزار نیکیاں ملتی ہیں ۔ جو لوگ 20 کی بجائے 8 رکعت تراویح پڑھتے ہیں ۔ وہ جمہور اہل سنت والجماعت کے عمل کے خلاف کرتے ہیں اور خلفائے راشدین کی سنت سے اعراض کرتے ہیں ۔ لہذا ہمیں تراویح کی بیس رکعات پڑھنی چاہیے ۔ تراویح رمضان کی تمام راتوں میں سنت موکدہ ہے ۔ اس لیے رمضان کی تمام راتوں میں تراویح کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ چند روزہ تراویح پڑھ لینے سے تراویح ہر گز معاف نہیں ہوتی ۔
٭حضور خاتم الانبیاء ﷺ نے ماہ رمضان میں جھوٹ ، غیبت ، شور شرابے ، گالی کا جواب دینے سے منع فرمایا ہے ۔ جو شخص روزے میں بھی ان چیزوں سے باز نہیں رہتا اس کو روزے کا ثواب نہیں ملتا ۔
حدیث کے مطابق ” اللہ تعالیٰ کو ایسے روزے کی کوئی ضرورت نہیں جس میں روزہ دار جھوٹ وغیرہ سے باز نہ رہے ۔” ( بخاری ، ابو الشیخ ،الترغیب )
” روزہ ، روزہ دار کے لیے ڈھال اس وقت ہے جبکہ وہ جھوٹ ، غیبت اور گناہوں سے بچے ۔” (طبرانی اوسط)
روزہ صرف کھا نے پینے سے باز رہنے کا نام نہیں ۔ روزہ کا مقصد یعنی روحانیت اور تقویٰ اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب روزہ دار روزہ میں فضول ، نامناسب اور گناہوں سے بچتا ہے ۔” اگر کوئی شخص روزہ دار کو گالی دے تو روزہ دار کو چاہیے کہ وہ اس کو یوں جواب دے یا دل میں یہ سوچے کہ ” میں روزہ دار ہوں ” گالی کا جواب ہر گز نہ دے ۔” ( صحیح ابن خزیمہ، حاکم )
٭ صحیح احادیث میں منقول ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں نبی اکرم ﷺ کے لیے مسجد نبوی میں اسطوانہ توبہ کے پیچھے ایک جگہ مخصوص کردی جاتی، جنہاں پردہ ڈال دیاجاتا یا چھوٹا ساخیمہ نصب کردیا جاتا۔یہاں تک آپ ﷺ تن تنہا تمام دنیوی تعلقات سے کنارہ کش ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہوجاتے ۔ اس خیمہ میں آپ ﷺ کے لیے بستر اور چارپائی نچھانا منقول ہے (زادالمعاد)
حضور ﷺ ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے ۔ آپ ﷺ شب قدر کی تلاش میں اعتکاف فرماتے تھے اسی لیے ایک سال پہلے عشرہ کا اعتکاف فرمایا پھر دوسرے سال درمیانی عشرے کا اعتکاف فرمایا پھر تیسری بار آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا۔ جب آپ ﷺ کو بذریعہ وحی یہ اطلاع دی گئی کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے تو اس کے بعد سے ہمیشہ آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا۔ ایک سال آپا عتکاف نہ کرسکے تو شوال کے پہلے عشرے میں اس کی قض ا فرمائی ۔
حیات طیبہ کے آخری سال آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ ( زادالمعاد)
ارشاد نبوی ﷺ ہ: جو شخص رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرے اس کو دو حج اور دو عمروں کا ثؤاب عطا کیاجاتا ہے ۔” (بیہقی)
حضور ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں راتوں کو خوب جاگتے اور عبادت کرتے اور اپنے گھر والوں کو بھی عبادت کے لیے بیدار فرماتے ۔ (بخاری ، ترمذی)
دوران اعتکاف حضور ﷺ نہ کسی مریض کی عیادت فرماتے ۔ نہ جنازہ میں زریک ہھوتے ۔ نہ وظیفہ زوجیھت ادا فرماتے ۔ طبعی ضروریاھت ( رفع حاجت ) کے لیے گھر جانا پڑتا تو راہ چلتے ہوئے بھی مریض سے زیادہ بات چیت اور لمبی چوڑی عیادت نہ فرماتے ۔ ( ابو داؤد )
احادیث مبارکہ سے اعتکاف کے یہ آداب معلوم ہوتے ہیں :
(الف)بغیر روزے کے اعتکاف نہ کیاجائے ۔روزے کے بغیر شرعاًاعتکاف ادا نہیں ہوتا ۔
(ب) بغیر روزے اعتکاف نہ کیاجائے ۔ روزے کے بغیر شرعا اعتکاف ادا نہیں ہوتا۔
(ج)ہمت اور طاقت کے مطباق راتوں کو عبادت سے قیمتی بنایاجائے ۔
(د)کاروباری تعلقات ،ازدواجی تعلقات اور تما م دنیوی کاموں سے لاتعلق ہو کر اللہ جل شانہ کی یاد اور اس کی عبادت کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیاجائے ۔البتہ طبعی ضروریات مثلا پیشاب ، پاخانہ ، طہارت وغیرہ کے لے مسجد سے باہر نکلنا درست ہے ۔
٭رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شب قدر کی تلاش سنت عمل ہے۔ آپ ﷺ کےا عتکاف کا ایک مقصد شب قدر کی تلاش بھی ہوتا تھا۔ شب قدر کی عبادت ایک ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ جس شخص کو اس رات عبادت کی توفیق مل جائے اس کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ( مسند احمد ، الترغیب)
قرآ ن مجید بھی شب قدر میں نازل ہوا ہے ۔ آپ ﷺ سے شب قدر کی یہ دعا منقول ہے : الھم انک عفو کریم تحب العفو، فاعف عنی ۔ شب قدر پانے کا آسان طریقہ اعتکاف یا طاق راتوں میں عبادت ہے ۔
٭رمضان کی آخری رات کی بھی احادیث میں خصوصی فضیلت وارد ہوئی ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے : ” رمضان کی آخری رات میں اس امت کے تمام روزہ داروں کی اللہ جل شانہ مغفرت فرمادیتے ہیں ۔” ( بیہقی،الترغیب ) ” رمضان کے ہر دن اللہ تعالٰی دس لاکھ مسلمانوں کو جہنم سے آزادی نصیب فرماتے ہیں ‘ (الترغیب والترہیب )
٭ حضور ﷺ روزہ کے دوران مسواک بھی فرماتے تھے ۔سر پر پانی بھی ڈال لیا کرتے تھے اور سرمہ بھی لگاتے تھے ۔ ناک میں پانی بھی پہنچاتے تھے ۔لیکن اس میں زیادہ مبالغہ کرنے سے منع فرماتے تھے ۔ رمضان المبارک میں کئی غزوات ہوئے ہیں ان غزوات میں آپ ﷺ نے روزہ نہیں رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ نہ رکھنے کی تاکید فرمائی ۔ جنگ ، سفر ، مرض میں اضافے کے خطرے اور سخت کمزوری یہ دو وجوہات ہیں جن کی بنا پر روزہ نہ رکھنے کی احادیث سے رخصت معلوم ہوتی ہے ۔
٭احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بھول کر کھا پی لینے ، بھول کر جماع کرنے ،پطھنے لگوانے اور خود بخود الٹی ہوجانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ روزہ اس وقت ٹوٹتا ہے جب روزہ دار اپنے اختیار سے منہ یا کسی اور قدرتی راستے سے کوئی چیز اس طرح استعمال کرے کہ وہ پیٹ یا حلق یا دماغ میں داخل ہوجائے ۔بدن سے خارج ہونے والی کسی چیز سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بخاری ، زیلعی)
اللہ جل شانہ ہمیں سنت کے مطابق رمضان المبارک گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ! ( آمین)
Thanks very interesting blog!