عبدالرافع کو رافع کہنا

سوال :السلام علیکم
کیا رافع نام خالی لے سکتے ہیں یا اس کو عبدالرافع کہنا چاہیے ؟
الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام
مذکورہ صورت میں” رافع“ ان ناموں میں سے نہیں ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی اس لیے صورتِ مسئولہ میں رافع یا عبدالرافع دونوں کہہ سکتے ہیں ۔
حوالہ جات :
1):وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة، ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى۔
(قوله: وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية: التسمية باسم يوجد في كتاب اللّٰہ تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها، وظاهره الجواز ولو معرفاً بأل“۔

(المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 417)

2):رافع کا معنی ہے بلند کرنے والا
کما فی القاموس الجدید:
(ص:532،)

3):مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اللّٰہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللّٰہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے۔لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ ”رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار ” قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے۔ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ ”عبد“ کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز ہے۔” مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا‘‘۔

(تفسیر معارف القرآن، تفسیر آیت ۱۸۰،ص ۱۳۲، ج ۴سورۃ الاعراف)
فقط واللّٰہ تعالیٰ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں