اگر کوئی آرٹسٹ کوئی اسکیچز بناتا ہے تو اس کے لیے اسلام میں کیا حکم ہے؟

السلام عليكم! 

سوال : اگر کوئی آرٹسٹ کوئی اسکیچز بناتا ہے تو اس کے لیے اسلام میں کیا حکم ہے؟

کیا جان دار چیزوں کی ڈرائنگ بنا سکتے ہیں؟

جواب :وعلیکم السلام! 

قرآن وحدیث میں جس تصویر پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، یہ وہ تصویر ہے جس میں تین چیزیں پائی جاتی ہوں:

١- وہ کسی جاندار کی تصویر ہو، پس غیر جاندار کی تصویر حرام نہیں، جیسے: دریا، پل اور درخت وغیرہ کی تصویر۔

٢- وہ تصویر کسی پائیدار شکل میں ہو، مثلاً: دیوار یا کاغذ وغیرہ پر بنی ہوئی تصاویر۔

البتہ ڈیجیٹل تصویر جو کیمرے یا موبائل سے لی گئی ہو، شعاعی تصویر ہونے کی وجہ سے بہت سے علماء کرام کے نزدیک تصویر کے زمرے میں نہیں آتی ۔

٣- تصویر میں اصل چہرہ ہے، لہٰذا تصویر وہی ہوگی، جس میں جاندار کا چہرہ لازمی طور پر پایا جائے، خواہ جان دار کا پورا یا آدھا دھڑ ہو یا نہ ہو اور اگر کسی تصویر میں چہرہ نہیں ہے، یا اس میں چہرہ تھا، لیکن مٹادیا گیا تو وہ تصویر کے حکم میں نہ ہوگا۔

لہذا پینٹر اگر کاغذ وغیرہ پر بنی ہوئی جاندار کی تصویر میں اگر سر نہ بنایا جائے، یا سر کا خاکہ بنایا جائے، لیکن چہرے کے نقوش نہ بنائے جائیں تو ایسی تصویر بنانے کی گنجائش ہے۔

اسی طرح اگر آرٹسٹ غیر جاندار اشیاء کے اسکیچ بنائے تو جائز ہے لیکن اگر جان دار کے بنائے تو جائز نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لما فی مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (13 / 244):

“وفي شرح السنة: فيه دليل على أن الصورة إذا غيرت هيئتها بأن قطعت رأسها أو حلت أوصالها حتى لم يبق منها إلا الأثر على شبه الصور فلا بأس به، وعلى أن موضع التصوير إذ نقض حتى تنقطع أوصاله جاز استعماله. قلت: وفيه إشارة لطيفة إلى جواز تصوير نحو الأشجار مما لا حياة فيه، كما ذهب إليه الجمهور وإن كان قد يفرق بين ما يصير ومآلا وانتهاء وبين ما يقصد تصويره ابتداء”.

وفی حاشية ابن عابدين (1 / 648):

“(قوله: أو مقطوعة الرأس ) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر أو يطليه بمغرة أو بنحته أو بغسله؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً، وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس؛ لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها، وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين، بحر.

(قوله: أو ممحوة عضو الخ ) تعميم بعد تخصيص وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبةً البطن مثلاً، والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم وإلا فلا، كما لو كان الثقب لوضع عصا تمسك بها كمثل صور لخيال التي يلعب بها؛ لأنها تبقى معه صورة تامة، تأمل. (قوله: أو لغير ذي روح ) لقول ابن عباس للسائل: فإن كنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس له. رواه الشيخان. ولا فرق في الشجر بين المثمر وغيره خلافاً لمجاهد، بحر”.

وفی شرح معانی الآثار مرویا عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ:

”الصورة الرأس فکل شيء لیس لہ رأس فلیس بصورة“

ترجمہ:

حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: تصویر میں اصل سر ہے، ہر وہ چیز جس کا سر نہ ہو وہ تصویر کے زمرے میں نہیں آتی۔

(شرح معانی الآثار کتاب الکراہة، باب الصور تکون فی الثیاب٢/ ۳۶۶، ط: مطبوعہ مکتبہ رحیمیہ دیوبند)

وفی کنزالعمال مرویا عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما:

ترجمہ:

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:

تصویر اصل میں سر ہے، جب سر کاٹ دیا جائے یا مٹا دیا جائے تو تصویر باقی نہیں رہے گی۔

(کنز العمال ۱۵/ ۴۰۴ ، رقم الحدىث: ۴۱۵۷٤، ط: موٴسسة الرسالة بیروت)

اپنا تبصرہ بھیجیں