عورتوں کا زیارت قبور کا مسئلہ

سوال:محترم جناب مفتیان کرام!

عورتوں کا قبرستان جانا کیسا ہے؟ جوان اور بوڑھی کا کوئی فرق ہےیا فتنہ ہونے نہ ہونے کا فرق؟

والسلام

سائل کا نام: گل محمد

الجواب حامدۃ و مصليۃ

عورتوں کا قبروں کی زیارت کے لئے جانا اختلافی مسئلہ ہے، متفقہ نہیں۔ بعض حضرات نے اس کو حرام قرار دیا، بعض مکروہ اور بعض نے کچھ شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی۔

جن حضرات سے حرمت منقول ہے وہ حدیث نبوی ﷺ سے استدلال کرتے ہیں: “آنحضرت ﷺ نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی۔” [۱]

جو حضرات جواز کے قائل ہیں اس حدیث سے استدلال کرتے جس میں نبی کریم ﷺ نے مطلقاً زیارت قبور کی اجازت دی: “میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا، مگر اب تم قبروں کی زیارت کر لیا کرو کیوںکہ وہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔” [۲] حدیث کے اطلاق میں مرد اور عورتیں شامل ہیں۔

مگر ان حضرات کے نزدیک شرط یہ ہے کہ عورتوں سے وہاں پر کوئی خلاف شرع کام سرزد نہ ہو جائے، جیسے نوحہ کرنا چلا چلا کر رونا و غیرہ، ورنہ ان کے نزدیک بھی ان کا جانا حرام یا مکروہ تحریمی ہوگا۔

نتیجہ بحث یہ نکلا کہ حرمت اور مشروط جواز کے اقوال موجود ہیں۔ مفتیٰ بہ قول [۳] کے مطابق جوان عورت کا جانا جائز نہیں مگر بوڑھی عورت ان شرائط کی پابندی کے ساتھ جا سکتی ہے: با پردہ ہو کر جائے، بے پردہ نہ جائے۔ قبرستان میں کوئی خلاف شرع کام نہ کرے، زور سے رونے، نوحہ کرنے، مُردوں کی مدح میں اشعار پڑھنے اور دیگر تمام غیر شرعی حرکتوں سے اجتناب کرے۔ ان شرائط کا لحاظ اگر یقینی ہو تو ان کے جانے کے لئے گنجائش نکل سکتی ہے

▪ [۱] عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال: ان رسول اللہ ﷺ لعن زوارات القبور۔

(مشکاۃ المصابیح: کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور، حدیث نمبر ۱۷۷۰)

[۲] عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال: کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا فانھا تزھد فی الدنیا و تذکر الآخرۃ۔ (مشکاۃ المصابیح: کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور، حدیث نمبر ۱۷۷۰)

[۳] ان کان ذلک لتجدید الھزن و البکاء و الندب علی ما جرت عادتھن فلا تجوز و علیہ حمل حدیث “لعن اللہ زائرات القبور” و ان کان للاعتبار و الترحم من غیر بکاء و التبرک بزیارۃ قبور الصالحین فلا باس اذا کن عجائز و یکرہ اذا کن شواب۔

(رد المختار: ۲/۲۴۲)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: ۱۳ صفر١٤٤٠

عیسوی تاریخ:٢۳اكتوبر٢٠١٨

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

اپنا تبصرہ بھیجیں