بچیوں کے قرآن کریم حفظ کروانے کے متعلق

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
سوال: کیا بچیوں کو حفظ کروانا صحیح ہے۔ سنا ہے کہ بچیوں کو پورا قرآن کریم حفظ نہیں کروانا چاہیے، بلکہ صرف عمہّ پارہ یا روز کے معمول کی سورتیں ہی یاد کروائی جائیں،رہنمائی فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب باسم ملهم الصواب
شریعت میں حفظ قرآن پاک کے متعلق لڑکا یا لڑکی کا کوئی فرق نہیں۔قرآن کریم حفظ کرنا بڑی سعادت مندی کی بات ہے۔احادیث مبارکہ میں اس پر بڑے فضائل آئے ہیں۔لہذا جو بات آپ نے سنی وہ درست نہیں بلکہ اگر لڑکی اتنی ذہین اور باذوق ہے کہ وہ اپنی دوسری مصروفیت کے باوجود قرآن کی دہرائی پوری شوق و محنت اور لگن سے کرتی رہے،تو ان کا حفظ کرنا صرف ان کے لیے ہی نہیں،بلکہ والدین کے لیے بھی سعادت اور شرف کا باعث ہوگا۔چنانچہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے علوم القرآن میں فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ،حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا،حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی حافظ قرآن تھیں۔ (الاتقان فی علوم القرآن:: 249/1)
تاہم مکمل قرآن شریف حفظ کرنا لازم نہیں،اس لیے اگر ہر کوئی شخص لڑکیوں کے اعذار کو دیکھتے ہوئے ان کو حفظ نہ کروائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

**********
حوالہ جات:
1۔ ’’إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَه وَقُرْانَه. فَإِذَا قَرَأْنٰه فَاتَّبِعْ قُرْانَه.ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَه۔‘‘
(سورة القیامۃ:19۔17)
’’ وہ تو ہمارا ذمہ ہے اس کو جمع کرنا (کردینا) تیرے سینہ میں اور پڑھنا تیری زبان سے، پھر جب ہم پڑھنے لگیں فرشتہ کی زبانی تو ساتھ رہ اس کے پڑھنے کے، پھر مقرر ہمارا ذمہ ہے اس کو کھول کر بتلانا۔‘‘
******
2۔عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:” خيركم من تعلم القرآن وعلمه“
(صحیح البخاری:رقم الحدیث:5027)
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو (خود) قرآن حکیم سیکھے اور (دوسروں کو بھی) سکھائے۔ ‘‘
*******
3۔ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيئٌ مِنَ الْقُرْآنِ، کَالْبَيْتِ الْخَرِبِ۔
(السنن الترمذي السنن::الرقم الحدیث: 2913)
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص جس کے دل میں قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے۔‘‘
******
4۔’’یَجِیْئُ الْقُرْآنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ حَلِّہٖ فَیُلْبَسُ تَاجَ الْکَرَامَۃِ، فَیَقُولُ: یَا رَبِّ زِدْہُ، فَیُلْبَسُ حُلَّۃَ الْکَرَامَۃِ، ثُمَّ یَقُوْلُ: یَا رَبِّ زِدْہُ، فَیُحَلّٰی حُلَّۃَ الْکَرَامَۃِ ، ثُمَّ یَقُوْلُ: یَا رَبِّ ارْضَ عَنْہُ فَیَرْضَی عَنْہُ، ثُمَّ یُقَالُ لَہٗ: اقْرَأْہُ وَارْقَہْ وَیُزَادُ بِکُلِّ آیَۃٍ حَسَنَۃً۔‘‘
(سنن الترمذی:2 /119)
’’ قیامت کے روز قرآن مجید آئے گا اور سفارش کرے گا: اے رب! اس (حافظ) کو پہنائیے، پس (رب تعالیٰ اس کو) کرامت کا تاج پہنائیں گے، پھر کہے گا: اے رب! اس حافظ کے لیے اور زیادہ کر تو (اللہ تعالیٰ) اس کو کرامت کی پوشاک پہنائیں گے، پھر کہے گا: میرے رب! اس سے راضی بھی ہوجائیے، پس کہاجائے گا: پڑھتا جا اور (جنت میں) چڑھتا جا اور ہر آیت کے بدلہ ایک حسنہ (نیکی) کا اضافہ کیا جائے گا۔‘‘
اب جنت میں قرآن کریم تو وہی پڑھ سکے گا جس نے حفظ اور یاد کیا ہوگا، جس نے قرآن کریم پڑھا ہی نہیں ہوگا، جس کو قرآن کریم کا تلفظ بھی صحیح نہیں آتا ہوگا وہ قرآن کریم کیسے پڑھ سکے گا؟
******
5۔ ’’اَلْقُرْآنُ أَفْضَلُ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ فَمَنْ وَقَّرَ الْقُرْأٰنَ فَقَدْ وَقَّرَ اللّٰہَ وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالْقُرْآنِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی ، حَمَلَۃُ الْقُرْآنِ ہُمُ الْمَحْفُوْفُوْنَ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ الْمُعَظِّمُوْنَ کَلَامَ اللّٰہِ الْمُلْبَسُوْنَ نُوْرَ اللّٰہِ فَمَنْ وَالَاہُمْ فَقَدْ وَالَی اللّٰہَ وَمَنْ عَادَاہُمْ فَقَدِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی۔‘‘
(الجامع لاحکام القرآن للقرطبیؒ، :1 /24)
*****
6۔ وحفظ جميع القرآن فرض كفاية ۔۔الخ
(تنویر الابصار:538/1)
******
7۔اعلم أن حفظ القرآن مقدار ما يجوز به الصلاة فرض عين على المسلمين،و حفظ فاتحة الكتاب وسورة واجب على كل مسلم،وحفظ جميع القرآن على سبيل الكفاية على الأمة
(الفتاوى التاتار خانية:366/1)

واللہ سبحانہ اعلم

22 جمادی الاولی 1444ھ
26 دسمبر، 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں