” بیت اللہ ” عظمت اسلام کا تابناک نشان

 یوں  تودنیا میں  متعدد چیزیں  ہیں جوقدیم  چیزوں  کی باقیات اور بچے کھچے آثار ہیں ۔ قبل از تاریخ س کی اقوام  اور ان  کی تہذیبیں  ، قدیم  طرز تعمیر  کے شاہکار  ، قدیم س عقائد  ونظریات  اور قدیم  دنیا کے  عجیب الخلقت  حیوانات  کی باقیات، یہ سب چیزیں   ایسی ہیں  جو یا اانتہائی قدیم ہیں  یا اشیائے  قدیمہ  کی باقیات شمار کی جاتی ہیں خود حضرت  انسان  ایک قدیم ترین چیز ہے ان میں سے بہت  سی چیزوں  کی قدامت  کا ابھی  تک   ماہرین کو علم نہیں ہوسکا ۔

 لیکن ایک چیز ایسی بھی ہے  جو ان سے  زیادہ قدیم  ہے. روئے  زمین  پر پائی جانے   والی تمام  بالنفس اور بے نفس مخلوقات  سے بھی قدیم ہے ۔ حضرت انسان بلکہ خود اس زمین اور کائنات  سے بھی زیادہ قدیم  ہے ۔

 زمین پر  بسنے والی  پہلی ذی شعور مخلوق ” جنات “تھی  جو انسان سے دو ہزار سال قبل بسائی گئی  باوا آدم کی تخلیق سے پہلے دنیا پر جنات کی آبادی تھی  یوں ” جنات ”  حضرت انسان سے بھی  دو سال زیادہ پرانی مخلوق  ہے ۔لیکن بیت اللہ  اوراس کےا حاطہ  میں  گھری ہوئی زمین  ان سب چیزوں  اورخود زمین سے زیادہ قدیم  تاریخ رکھتی ہے۔

لاتعداد سیاروں اور ریت کی طرح  بکھرے  ستاروں، ان گنت کہکشاؤں  اوروسیع  خلا پر  مشتمل  یہ کائناتی  وسعتیں  پانی سے وجود میں لائی گئی  ہیں  پانی ان کا ” کلیدی ”  اور ” بنیادی  مادہ ”  ہے ۔ اس وقت کہ جب عرش پانی میں کھڑا تھا پانی  پر بلبلہ  کی شکل  کی ایک چیز  قدرت خداوندی سے  عدم   وجود میں آئی  روایات کی رو سے یہی بلبلہ  ” زمین  ” کا  سنگ میل ثابت ہوا (  ممکن ہے کہ ساری کائنات  کا بھی سنگ میل  یہی ہو ۔ واللہ اعلم )  دنیا کے نقشے  پرآج جہاں  ” بیت اللہ ” قائم  ہے ہزاروں  سال بیتے جب اسی جگہ کو پھیلا کر یہ عالم  رنگ وبو وجود پذیر ہوا یہ جگہ  دنیائے ہستی کا  ”  مبدا ” ہے  اور عالم  فانی  کا ” منتیٰ ” بھی ۔زمین کی ابتدا جیسے اس جگہ  سے ہوئی  اس کی  اوراس پر بسنے والی مخلوقات کی  بقا اور وجود بھی اسی ” بیت اللہ  ” سے وابستہ ہے ۔ “بیت اللہ شریف ” دنیا  کی بقا اور یہاں رہنے  والی  مخلوقات  کی حیات کی ” علامت ” ہے ۔ زمین  پرفنا  طاری  ہونے میں اس وقت بہت کم گھڑیاں  رہ جائیں گی جب پستہ  قامت  ، موتی پنڈلیوں  والا، بھدا حبشی کافر بادشاہ “بیت اللہ  کو منہدم  کردے گا  ۔

ارشاد خداوندی  ہے :”  یقیناً وہ  عمارت جو اللہ کی  عبادت کے لیے  انسانوں کے واسطے تعمیر کی گئی  وہ عمارت ہے جو مکہ شریف میں ہے ( یعنی  بیت اللہ )  ( آل عمران : 107 )

“بیت اللہ  ” پر تعمیر وتجدید تعمیر اورتزیین وآرائش  کے متعدد ادوار گزرے ہیں  جن کا ذکر موقع کی مناسبت سے بڑا  مفید اورقارئین کی معلومات  میں اضافے  کا سبب ہوگا۔

1۔ تخلیق عالم سے دو ہزار سال پہلے خود اللہ تعالیٰ  نے اپنے  امرکن  سے پیدا کیا  ( وھذاقول  ابن عمرومجاھد وقتادۃ والسدی )

2۔ تخلیق آدم سے دو ہزارسال پہلے  فرشتوں  نے اس کی تعمیر  کی ( رواہ الخازن )

3۔آدم علیہ السلام نے  ہبوط کے پانچ  پہاڑوں  ، سینا ، زیتا ، جودی  اور حرا  کے پتھروں  سے بنایا ۔ا بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  کہ آدم علیہ السلام  نےہندوستان  سے  پیدل چالیس حج کیے ہیں ۔

4۔  شیث بن آدم علیہ السلام  نے مٹی اور پتھروں سے تعمیر کی ۔

5۔طوفان  نوح  میں  غرقاب  ہونے  یا آسمان  پر اٹھالیے  جانے کے بعد ایک مدت  کے بعد  حضر ت ابراہیم  علیہ السلام  نے  فرزند  صالح  اسماعیل علیہ السلام کی معاونت  سے  دوبارہ تعمیر کی  اس کی تعمیر کا حکم   کرنے والا خود  پروردگار  تھا قرآن  کی  سورہ بقرہ  میں اس کی تعمیر  کا ذکر ہے ۔ا س تعمیر  اور بعثت نبوی میں  تین  ہزار سال  کا فاصلہ ہے ۔

6۔اس کے بعد  عمالقہ نے تعمیر کی ۔

7۔پھر قبیلہ جرہم نے۔

8: پھر حضورﷺ کے پانچویں پشت کے  دادا   ” زید  قصی “نے کی۔

9۔نویں تعمیر  کا شرف قریش مکہ کو حاصل ہوا  اس وقت  حضور ﷺ 25یا 35 برس کی عمر کو پہنچے تھے ۔ حجراسودآپ نے ہی اپنے دست اقدس سے رکھا تھا۔

10 ۔ یزید کی امارت میں حصین بن  نمیرکندی ” نے مکہ  پر منجنیقوں سے آتشیں گولے  پھینکے ، ہفتہ  3 ربیع الاول  کو بیت اللہ  کی عمارت اورآثار  متبرکہ  کو غیر معمولی  نقصان پہنچا  یزید  اگلے ماہ  فوت  ہوگیا ۔ اس کی  فوج کی روانگی  کے بعد  ” حضرت عبداللہ بنزبیر  نے اسی سن  یعنی  65ھ  میں تجدید وتعمیر  کی ، تعمیر قریش میں حطیم کو چار دیواری  میں لانا  رہ گیاتھا    ابن  زبیر رضی اللہ عنہ نے  حطیم کو بیت اللہ کے اندرداخل  کیا  جو کہ منشاء نبوی کے عین مطابق تھا۔

11۔ ابن  ز بیر رضی اللہ  عنہ کی شہادت کے بعد حجاج بن یوسف  کے بہکاوے  پر عبدالمالک   بن مروان نے  73ھ  میں دوبارہ  سے قریش کے طرز تعمیر پر کردیا ۔

12۔ 139ھ  تک حجاج  کی تعمیر چلی آتی  رہی ۔ اس سے قبل  96ھ  میں سلطان سلیمان  نے چھت کی مرمت کروائی  اور121 ھ  میں سلطان احمد نے چھت  ، میزاب رحمت  اوردیوار  کعبہ  کی مرمت کروائی  ان کے علاوہ  ولید بن عبدالمالک  ، متوکل  باللہ نے بھی تزیین  مرمت کرائی ہے  ۔ 552ھ اور550 ھ میں وزیر موصل  جمال الدین  جواد نے  ،814 ھ 825ھ میں ترمیم وتزیین کا ذکر ملتا ہے، یہ تمام  ترمیمات  محض  ترمیم اور تزیین ہی کی حد میں آتی ہیں ۔ 1.39 ھ میں  سلطان  مراد خان  کے دور میں ایسی طوفانی بارشیں اور عظیم سیلاب آیا کہ قفل کعبہ  سے بھی دو ہاتھ  اوپر تک بھر آیا  اوردو دن کے بعد اچانک   یہ حصہ گرگیا ، سلطان مراد  نے  1040 ھ میں تجدید تعمیر کا  شرف حاصل کیا۔

اس کے بعد  سلطان عبدالحمید ثانی 1299ھ میں اندرون  کعبہ اصلاح وترمین  کی، شریف مسعود نے بھی اصلاح وترمیم کی ہے  اور موجودہ  دورمیں شاہ فہد  بن عبدا لعزیز اور ان کے والد شاہ عبدالعزیز  نے بھی بیت اللہ ، مسجد الحرام ، اور مسجد نبوی  کی بڑی خدمت کی ہے  ( تفصیل کے لیے اوجز المسالک : ج 7/119تا 7/14 طبع دارالکتب العلمیہ بیروت  )

ہر فرد مسلم اس بلند پایہ یادگار، عظیم  تر معبد اور اپنی عزت  وحکومت کی پائیدار نشانی  پر  نازاں ہے ۔ یہ اسلام کی عظمت اور وبرتری  کی دلیل ہے  کہ اس کا قبلہ  ایک قدیم ترین اور مفرد تاریخ رکھنے والا  معبد ہے  ایسا معبد کہ جس کا وجود دنیا  کی بقا  کی شناخت  اور انہدام دنیا کے فنا کی علامت ۔ مسلمانوں کی  تاریخ کا یہ ایک نرالا باب جو کہ اسلام کی حقانیت  کی دلیل  بھی ہے کہ یہ اس وقت سے جب اسلام  کی اس خطہ   میں آبیاری  ہوئی تھی  آج تک اہل  اسلام کی وراثت رہی ہےوقت کا کوئی طاغوت ان سے یہ ” وراثت ” چھین نہیں سکا اور نہ چھین سکتا  ہے دجال اکبر  بھی مسلمانوں سے  یہ ارض  مقدس  نہیں لے سکتا۔ یہ اس وقت  ہی ہاتھ آسکتا ہے  جب روئے زمین  پر “اللہ ”  اور اسلام کا نام لیوا باقی  نہ رہے  اور یہ وہ وقت ہوگا  جب سارے عالم پر کافروں   کی حکومت  ہوگی اور خود رب کعبہ  بھی دنیا  کی فنا کا فیصلہ  کرچکا ہوگا۔

تحریر : مفتی انس عبدالرحیم

   

اپنا تبصرہ بھیجیں