کورٹ میرج کا شرعی حکم

فتویٰ نمبر:691

السوال ۔کورٹ میرج کرنے شرعا کیسا  ہے ؟

الجواب حامدہ و مصلیہ

شرعاًاولاد کو اپنے ولی کی سرپرستی میں نکاح کی ترغیب دی گئی ہے اور ولی کی رضامندی کے بغیر کورٹ میرج یا خفیہ طور پر نکاح کرنا عُرفاً شرم وحیا کے بھی خلاف ہے اور کئی آئمہ کرام کے مذہب کے بھی خلاف ہے اس لئے اولاً اس کی حوصلہ افزائی کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔

البتہ اس کے باوجوداگرکوئی لڑکی بالغہ ہو اور باقاعدہ ایجاب و قبول کے ساتھ کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلےاور نکاح بھی کفؤ میں اورمہرِ مثل کے ساتھ ہوا ہو تو شرعاً یہ نکاح احناف کے نزدیک منعقد ہوجائے گااور والدین کو یہ نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔

اور اگر یہ نکاح مہرِ مثل سے کم پر ہوا ہے تو لڑکی کے اولیاء کو اعتراض کا حق حاصل ہے یہاں تک کہ شوہر مہر کو مہرِ مثل کے برابر کردیے ،ورنہ عدالت کے ذریعے اولیاء اس نکاح کو فسخ کرواسکتے ہیں۔

اور اگر لڑکا اس لڑکی کا کفؤ ( ہم پلّہ ) نہیں یا انہوں نے ایجاب و قبول کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نہیں کیا تھا تو شرعاً یہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔

گزشتہ زمانہ میں احناف کا فتوی یہ تھا کہ غیر کفو میں نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا، لیکن یہ قول فقہاء احناف کا اصل مذھب نہیں بلکہ نوادر کی روایت ہے جس پر اس وقت کے عرف کو مد نظر رکھتے ہوۓ فتوی دیا گیا، اب بھی بعض حضرات نے بدرجہ احتیاط اسی قول کو راختیار کیا ہے،

لیکن آج کل چونکہ غیر کفو میں اولیاء کی رضامندی بغیر نکاح کر لینا عام ہو چکا ہے،اس صورت میں ہم یہ کہیں کہ نکاح منعقد نہیں ہوا تو لوگ زنا کے مرتکب قرارپائیں گے اس لیے ظاہر الروایہ کو لیا جائے گا جس کا ذکر شروع میں کیا گیا کہ نکاح منعقد ہوجائے گا اولیاء کو فسخ کا اختیار ھو گا

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (3 / 84)

حَاصِلَهُ: أَنَّ الْمَرْأَةَ إذَا زَوَّجَتْ نَفْسَهَا مِنْ كُفْءٍ لَزِمَ عَلَى الْأَوْلِيَاءِ وَإِنْ زَوَّجَتْ مِنْ غَيْرِ كُفْءٍ لَا يَلْزَمُ أَوْ لَا يَصِحُّ بِخِلَافِ جَانِبِ الرَّجُلِ فَإِنَّهُ إذَا تَزَوَّجَ بِنَفْسِهِ مُكَافِئَةً لَهُ أَوْ لَا فَإِنَّهُ صَحِيحٌ لَازِم،

الدر المختار- (3 / 55)

(وَلَا تُجْبَرُ الْبَالِغَةُ الْبِكْرُ عَلَى النِّكَاحِ) لِانْقِطَاعِ الْوِلَايَةِ بِالْبُلُوغِ (فَإِنْ اسْتَأْذَنَهَا هُوَ) أَيْ الْوَلِيُّ وَهُوَ السُّنَّة،

الهداية في شرح بداية المبتدي – (1 / 196)

” وإذا تزوجت المرأة ونقصت عن مهر مثلها فللأولياء الاعتراض عليها ” عند أبي حنيفة رحمه الله ” حتى يتم لها مهر مثلها أو يفارقها ” وقالا ليس لهم ذلك وهذا الوضع إنما يصح على قول محمد رحمه الله على اعتبار قوله المرجوع إليه في النكاح بغير الولي وقد صح ذلك، وهذه شهادة صادقة عليه لهما أن ما زاد على العشرة حقها ومن أسقط حقه لا يعترض عليه كما بعد التسمية ولأبي حنيفة رحمه الله أن الأولياء يفتخرون بغلاء المهر ويتعيرون بنقصانه بأشبه الكفاءة بخلاف الإبراء بعد التسمية لأنه لا يتعير به.

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (3 / 55)

(قَوْلُهُ وِلَايَةُ نَدْبٍ) أَيْ يُسْتَحَبُّ لِلْمَرْأَةِ تَفْوِيضُ أَمْرِهَا إلَى وَلِيِّهَا كَيْ لَا تُنْسَبَ إلَى الْوَقَاحَةِ بَحْرٌ وَلِلْخُرُوجِ مِنْ خِلَافِ الشَّافِعِيِّ فِي الْبِكْرِ، وَهَذِهِ فِي الْحَقِيقَةِ وَلَايَةُ وَكَالَة

والله تعالى اعلم بالصواب 

اھلیہ ظھیر شہزاد

صفه دار الافتاء آن لائن کورس

31.1.2017

اپنا تبصرہ بھیجیں