دودھ کے لیے رکھے گئے جانور کی قیمت قربانی، صدقہ فطر کے نصاب میں شامل نہیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب حامداً و مصلیاً

 1۔دراصل قربانی اور صدقہ فطر کے نصاب میں انسان کی ذاتی اور اپنے اہل و عیال کی حاجت اصلیہ سے زائد اشیاء کی قیمت کا بھی اعتبار کیا جاتا    ہے (جیسا کہ سابقہ فتوی کے پہلے جواب میں مذکور ہے) ”فتاوی ہندیہ‘‘ کی عبارت : ’’وَ بِبَقْرَۃِ وَاحِدَۃً غَنِیٌّ ‘‘ اور ’’ فَأَمَّا ما عدا ذَلِکَ مِنْ سَائمَۃِ أَوْرَ قِیْقً أَوْ  خَیْلِ أَوْ متَاع ً لِتجَارَۃِ َّو غَیْرِ ھا فَاِ نَّہُ یُعِتَدُّ بِہِ مِنْ یَسَارِہِ‘‘ کا بھی یہی مطلب ہے کہ اگر یہ چیزیں تجارت کے لیے ہوں یا تجارت کے لئے نہ ہوں

لیکن حاجت اصلیہ سے زائد ہوں تو ان کی قیمت بھی نصاب میں شامل کی جایئگی.اس بات کا پہلا  قرینہ تو یہ ہے کہ یہاں ’’بَقَرَۃ وَاحِدَۃ‘‘ کو

’’زارع‘‘ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے،چونکہ ’’بَقَرَۃ ‘‘ (گائے)سے عام طور پر کھیتی باڑی میں کام نہیں لیا جاتا،اس لیے اسے زارِع کی حاجت سے زائد قراردیکر اس کی قیمت  کااعتبارکیا گیا ،لیکن اگر وہ دودھ کے لیے ہو تو چونکہ وہ حاجت اصلیہ میں داخل ہو جائیگی،اس لیے نصاب میں اس کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں یہی بات مذکور ہے کہ اگر مذکورہ  چیزوں سے انسان مستغنی ہو یعنی یہ چیزیں اس کے استعمال میں نہ ہوں اور اسے ان کی حاجت

 پیش نہ آتی ہوں تو ان کی قیمت بھی یُسر ( نصاب کی تکمیل) میں شمار ہو گی ، لہذا جو جانور دودھ یا کسی اور خدمت کے لئے ہوں ان کی قیمت کا اعتبارنہیں ہوگا۔

(۲) شوہر کے معسر  یا موسر ہو نے سے بیوی کے نان نفقہ میں تو فرق آتا ہے، لیکن اس سے عورت کی حوائج اصلیہ میں فرق نہیں آتا، کیونکہ نفقہ کے علاوہ عورت کی اور بھی کئی ضروریات ہوتی ہیں، لہذا جو چیزیں انسان کی حاجت اصلیہ میں داخل ہوں وہ چیزیں عورت کی حاجت ِ اصلیہ شمار ہوں گی، خواہ زوج معسر ہو یا موسر ،’’ احسن الفتاوی‘‘ میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔

(۳) واضح رہے کہ سابقہ فتوی کے جواب نمبر ۲ میں اس بات کی تفصیل ذکر کردی گئی ہے کہ شرعاً حاجتِ اصلیہ کی کوئی تحدید مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو ان کی حاجت پیش آتی ہوں ایسی اشیاء حاجت ِ اصلیہ کے تحت شمار ہوں گی، اگرچہ ان کی قیمت ہزاروں ، بلکہ لاکھوں میں ہو، کیونکہ قیمت کا اعتبار اس وقت ہوتا ہے جب کہ اشیاء تجارت کے لئے ہوں یا حاجت اصلیہ سے زائد ہوں،

 اور یہی بات جانوروں میں بھی ہے، لہذا جتنے بھی جانور انسان کے استعمال میں ہوں ، یعنی دودھ  کے لیے ہوں یا ہل جوتنے کے لیے یا کسی اور

خدمت کے لیے ، ایسے جانور حاجت اصلیہ سے زائدشمار نہیں کیے جائیں گے، اگر چہ وہ تعداد میں زیادہ ہوں اور ان کی قیمت ہزاروں میں         

ہو، چناچہ  ’’فتاوی محمودیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ:

سوال:[۴۷۱۰]: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ : بہشتی زیور، ص: 36، تیسرا حصہ ، حاشیہ اول میں ذکر کیا گیا ہے، جس کا حوالہ  ’’مراقی الفلا ح علیٰ حاشیۃ  الطحطاوی‘‘،ص، ۳۹۴ ہے کہ:

تو مضمون ہذا سے ہما  ری عقل میں بہت کم لوگوں پر صدقہ فطر وا  جب ہوگا۔

۱۔ذیل میں جتنی اشیاء ذکر کی گئی ہیں وہ سب  ہما  ری حوائج اصلیہ ہیں  اور حوا ِئج عیالیہ ہیں: مسکنہ، ثیابہ، أثاثۃ المنزل،  فرسہ، و دابۃ للرکوب،       سلاحہ،   کتابہ، اس کے سوا آباد کرنے کے لیے بیل، یعنی ہل جوتنے کے لیے اور دودھ پینے کے لیے ،

بوجھ ڈھونے  کے لیے زمین، دھان، گیہوں، وغیرہ، لہذا بہشتی زیور نمبر: ۲ کے مسئلہ کے اعتبار سے یہ ہر ایک اگرچہ ہزاروں روپیہ کی قیمت کا ہو

 اور ضرورت سے زیادہ نہ ہو تو صدقہ فطر واجب نہیں، یہ صحیح ہے یا نہیں؟

الجواب حامدا و مصلیا: مسئلہ اسی طرح ہے، دیگر کتب فقہ بحر، بدائع وغیرہ میں بھی مذکور ہے، ایسے شخص پر صدقہ فطر واجب نہیں۔ (۹/۶۱۵، ۶۱۴)  

(۴)  جانوروںکا سائمہ ہونا (یعنی سال کے اکثر حصہ  میں گھر کے باہر  جنگل وغیرہ میں چرنا) صرف زکوۃ کے وجوب کے لیے شرط ہے،  ،قربانی اور  صدقہ فطر کے نصاب میں اس سے کچھ فرق نہیں آتا، لہذااگر جانور ضرورت سے زائد ہو تو بہر صورت اس کی قیمت کا اعتبار کرکے قربا  نی اور صد ِ      قہ فطر کے نصاب کی تکمیل کی جائے گی، خواہ جانورسائمہ ہو یا  نہ ہو۔

دراصل اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ  زکوۃ کے وجوب کے لیے مال کا ’’ نامی ‘‘ہونا ضروری ہے، جبکہ قربا نی اور صدقہ ِ فطر کے نصاب میں’’ نما ء‘‘ کی شرط نہیں، ’’نماء ‘‘ کی کئی صورتیں ہیں ( حقیقی نماء، تقدیری نماء، خلقی نماء اور فعلی نماء) اور  ’’اسامۃ‘‘   بھی نماء کی ایک صورت (فعلی نماء) ہے، اور قربانی اور صدقہ فطر  کے نصاب میں چونکہ نماء شرط نہیں ہے،  اس لیےجانور وں کا ’’ سائمہ ‘‘ہونابھی ضروری نہیں، بلکہ صرف حوائجِ اصلیہ سے زائد ہوناشرط ہے۔

(۵) جیسا کہ پہلے واضح ہوچکا ہے کہ قربا  نی اور صدقہِ فطر کے نصاب کے سلسلے میں جانوروں  کی قیمت کا  اعتبار اس وقت کیا جائے گا جبکہ  وہ حا  جت اصلیہ سے زائد ہوں، اگر کسی عورت کی ملکیت میں  جانور ہوں  اور وہ اس کی  حا  جت اصلیہ  سے  زائد نہ ہو ں  تو محض ان جانوروں کی وجہ سے 

اس عورت پر قربا  نی  اور صدقہ فطر  واجب نہیں ہوگا، واضح رہے  کہ یہاں اس بات سے کوئی فرق نہیں آتا کہ  جانوروں کو چارہ کہاں سے اور کس کی زمین سے دیا  جارہا ہے۔

(۶) ایسے جانوروں کا کوئی خاص نام نہیں ہے، بلکہ انہیں ’’حا  جت اصلیہ  ‘‘ میں شمار کیا جائیگا ۔

(۷) ’’امداد السائلین  ۲/۴۱۴‘‘ میں صرف ُ ان  بھیڑوں کی وجہ سے قربا  نی یا  صدقہ فطر کو لازم قراردیا گیا جو حوائجِ اصلیہ سے زائد ہو ں اورخود

 ان کی قیمت یا  دوسرے حوائجِ اصلیہ کے ساتھ ملکر ان کی قیمت ساڑھے  باون  تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہوجائے، جو بھیڑ بکریاں حوائجِ اصلیہ میں داخل ہوں اُن کا ذکر و ہاں نہیں ہے۔

(۸)  کسی انسان کے ’’ اہل وعیال‘‘ شرعاً گھر کے وہ افراد کہلاتے ہیں جو انسان کے ساتھ رہتے ہوں اور ان کا نفقہ انسان پر واجب ہو، لہذا اس میں بیوی شامل ہے،ا سی طرح  بیٹیاں  شادی ہونے تک اور نابالغ بیٹے    شامل ہیں، بشرطیکہ ان کی اپنی ملکیت میں مال نہ ہو، با  لغ بیٹے اور  ان کے بیوی بچے اہل وعیال میں شمار نہیں ہوں گے، تاہم وہ بالغ بیٹے جو کسی مرض وغیرہ کی وجہ سے کمانے کی  قدرت نہ رکھتے ہوں اُن کا نان نفقہ بھی  چونکہ والد پر ہے، اس لیے وہ بھی اہل وعیال میں شمار ہوں گے

واللہ سبحانہ تعالی اعلم

دار الافتاء جامعہ دار العلوم کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ   پی ڈی ایف فائل  میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/554460384923211/

اپنا تبصرہ بھیجیں