دوران عدت والد کی عیادت کے لیے جانا

سوال:السلام علیکم و رحمة الله و بركاته

عرض تحریر آپ سے معلوم کیا تھا کہ ایک خاتون عدت وفات گذار رہی ہیں اور انکے والد صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے اور وہ دور گاؤں میں رہتے ہیں اور وہ ان سے ملنے جانا چاہتی ہیں تو کیا وہ عدت کے اندر سفر کر سکتی ہیں؟

براہ مہربانی جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

دوران عدت بلا ضرورت شرعیہ اور طبعیہ کے عورت کے لیے گھر سے نکلنا جائز نہیں۔نیز کسی قریبی رشتے دار کی عیادت کے لیے بھی نکلنے کی اجازت نہیں ؛ البتہ ایک قول کے مطابق اگر کسی قریبی رشتہ دار کی حالت نازک ہو اور اس کی وجہ سے معتدہ کی ایسی حالت ہو کہ اس کو دیکھے بغیر چین ہی نہ آئے تو ضرورت طبعیہ پر قیاس کرتے ہوئے دن کے وقت میں عیادت کے لیے نکلنے کی گنجائش دی گئی ہے۔

مذکورہ صورت میں والد کی عیادت کے لیے عورت کو سفر کرنا پڑے گا جبکہ دوران عدت سفر کرنے کی اجازت نہیں ۔ یہاں تک کہ اگر عورت کسی سفر میں ہو اور اس دوران اس پر عدت واجب ہو جائے تو اس کے حکم میں کافی تفصیلات ہیں کہ اس وقت وہ عورت شہر میں ہے،دیہات میں ہے یا جنگل میں؟نیز یہ بھی دیکھا جائے گا کہ اس کے وطن اور منزل یعنی جہاں جانا چاہتی ہے دونوں کے بیچ فاصلہ کتنا ہے؟ وغیرہ جس کا تقاضہ یہی ہے کہ دوران عدت سفر شرعی کے لیے نکلنا درست نہیں۔ لہذا مذکورہ صورت میں عورت کے لیے والد کی عیادت کی خاطر سفر کرنے اور گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔

==================

(وتعتدان) أی معتدة طلاق وموت (فی بیت وجبت فیہ) ولا یخرجان منہ (إلا أن تخرج أو یتہدم المنزل، أو تخاف) انہدامہ،( الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 5/ 225?،فصل فی الحداد?،ط: زکریا، دیوبند)نیز دیکھیں: فتاوی دارالعلوم دیوبند 10/309?، سوال:1074، ط: کراچی)

“(أبانها، أو مات عنها في سفر) ولو في مصر (وليس بينها) وبين مصرها مدة سفر رجعت ولو بين مصرها مدته وبين مقصدها أقل مضت (وإن كانت تلك) أي مدة السفر (من كل جانب) منهما ولا يعتبر ما في ميمنة وميسرة، فإن كانت في مفازة (خيرت) بين رجوع ومضي (معها ولي، أو لا في الصورتين، والعود أحمد) لتعد في منزل الزوج (و) لكن (إن مرت) بما يصلح للإقامة كما في البحر وغيره. زاد في النهر: وبينه وبين مقصدها سفر (أو كانت في مصر) أو قرية تصلح للإقامة (تعتد ثمة) إن لم تجد محرما اتفاقا، وكذا إن وجدت عند الإمام (ثم تخرج بمحرم) إن كان”.

*الدر المختار علی تنویر الابصار (3/ 538)

فقط واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں