فیشن زدہ کپڑوں کی سلائی کاحکم

فتویٰ نمبر:1099

میں کپڑوں کا کاروبار کرتی ہوں۔ آج کل ایسے کپڑے آتے ہیں جو ستر کو مکمل ڈاھنپتے نہیں ہیں۔ جیسے گھٹنوں تک چکن کی چوڑی لیس ۔ 

ایسے کپڑوں کا کاروبار کرنا جائز ہے؟ ایسے کپڑوں کی خرید و فروخت اور اس سے آئی ہوئی کمائی درست ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب

وعلیکم السلام ور حمۃ اللہ وبرکاتہ!

عورت کا ایسے غیر شرعی لباس، جو ستر کو پورا نہیں ڈھانپتے یا اعضا کو نمایاں کرتے ہیں، غیر محرم کے سامنے پہننا قطعا جائز نہیں ،چونکہ عورت کا اپنے شوہر کے سامنے اس طرح کا لباس پہننا جائز ہے، نیز ایسے کپڑوں کا دوسرا جائز مصرف بھی ہوسکتا ہے اور ان کپڑوں کو بیچنے میں آپ کا مقصد صرف کپڑوں کا کاروبار ہے ، بے پردگی پر تعاون مقصود نہیں ،البتہ اس بات کی توقع رکھنا مشکل ہے کہ خریدنے والے شوہر یا محرم کے سامنے ہی استعمال کریں گے غیر محرم کے سامنے نہیں   اس لیے تبعا ان کپڑوں کے بیچنے میں ایک قسم کا تعاون ہے، اس لیے ایسے غیر شرعی لباس بیچنا کراہت سے خالی نہیں ، تاہم اس کراہت کے باوجود اس کی آمدنی حلال ہے ، کیونکہ یہ آمدنی کپڑوں میں لگائے جانے والے مالیت کے عوض ہے اور وہ حلال ہے گویا اس کاروبار میں کراہت لغیرہ ہے اور احتیاط کرنا اولی ہے البتہ جو یہ غیر شرعی لباس خریدیں گے وہ خود گناہ گار ہوں گے ، بس آپ کے دل میں اس طرح کے لباس کی نفرت رہنی چاھیے۔ 

الامور بمقاصدھا ۔ (الاشباہ والنظائر لابن النجیم: ۹۷/۱)

الضابط عندھم، ای عند فقہاء الحنفیۃ : ان کل ما فیہ منفعۃ تحل شرعا فان بیعہ یجوز لان الاعیان خلقت لمنفعۃ الانسان۔۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ : ۳۰۴۹/۴، طبع دار الفکر )

فاذا ثبت کراھۃ لبسھا للتختم ثبت کراھۃ بیعھا وصیغھا ، لما فیہ من الاعانۃ علی مالا یجوز وکل ما ادی الی ما لا یجوز لا یجوز ۔ ۔ ۔ ( الدر المختار : کتاب الحظر والاباحۃ ، فصل فی اللبس ۳۶۰/۶)

لا یکرہ بیع الجاریۃ المغنیۃ والکبش النطوح ۔ ۔ ۔ ۔ لان لیس عینھا منکرا وانما المنکر فی استعمالھا المحظور ۔ ۔ الخ ۔( الدر المختار : ۲۶۸/۴)

(مستفاد من کتاب النوازل : ۳۴۳/۱۵، کتاب الفتاوی : ۲۷۱/۵)

واللہ اعلم 

بنت عبدالباطن عفی اللہ عنھا 

۱رجب ۱۴۳۹ھ

۱۹ مارچ ۲۰۱۸ ع

اپنا تبصرہ بھیجیں