حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا کہ آل حم دیباج القرآن ہے .. دیباج ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں مراد اس سے زینت ہے اور مسعر بن کدام فرماتے ہیں کہ ان کو عرائس کھا جاتا ہے یعنی دلہنیں
قرآن کا خلاصہ :
حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایہ کہ ہر چیز کا ایک مغز اور خلاصہ ہوتا ہے – قرآن کا خلاصہ آل حم ہیں یا فرمایہ کہ حوامیم ہیں ..یہ روایت ابو عبید قاسم بن سلام رحمتہ الله نے اپنی کتاب فضائل القرآن میں لکھی ہیں
قرآن کی مثال :
حضرت عبداللہ رضی الله عنہ نے فرمایہ کہ قرآن کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص اپنے اہل عیال کی رہائش کے لئے جگہ تلاش میں نکلا تو کسی ہرے بھرے میدان کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا اچانک آگےبڑھا تو روضات و مثآت یعنی ایسے باغات جن کی زمین میں اگانے کا مادہ سب سے زیادہ ہے ان کو دیکھ کر کہنے لگا میں تو بارش کی پہلی ہی ہریالی کو دیکھ کر تعجب کر رہا تھا – یہ تو اس سے بھی عجیب تر ہیں تو اس سے کہا جائے گا پہلی ہریالی اور سر سبزی کی مثال ام قرآن کی مثال ہے اور روضات و مثات کی مثال قرآن میں آل حم کی مثال ہے – اسی لئے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایہ کہ جب میں تلاوت قرآن کرتے ہوۓ آل حم پر آجاتا ہوں تو گویا ان میں میری بڑی تفریح ہوتی ہے
مسند بزار میں اپنی مسند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایہ کہ جس سخص نے شروع دن میں آیت الکرسی اور سورۂ مؤمن (کی پہلی تین آیات ) پڑھ لیں – وہ اس دن ہر برائی اور تکلیف سے محفوظ رہے گا – اس کو ترمزی نے بھی روایت کیا ہے -( ابن کثیر س٦٩ ج٤)
دشمن سے حفاظت :
ابو داؤد ترمزی میں با سناد صحیح حضرت مہلب بن ابی سفره رضی الله عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے ایسے شخص نے روایت کی کہ جس نے خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ آپ ( کسی جہاد کے موقع پر رات میں حفاظت کے لئے ) فرما رہے تھے کہ اگر رات میں تم پر چھاپہ مارا جائے تو تم حم لا ینصرون پڑھ لینا جس کا حاصل لفظ حم کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے کہ ہمارا دشمن کامیاب نہ ہو. اور بعض روایات میں حم لاینصرون بغیر نون کے آیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب تم حم کہو گے تو دشمن کامیاب نہ ہوگا – اس سے معلوم ہوا کہ حم دشمن سے حفاظت کا قلعہ ہے (ابن کثیر)
حضرت ثابت بنانی فرماتے ہیں کہ میں حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ کوفے کے گرد و نواح میں تھا میں نے ایک باغ میں جاکر دو رکعت نماز شروع کی اور اس سورۃ مومن کی تلاوت کرنے لگا میں ابھی الیہ المصیر تک پہنچا ہی تھا کہ ایک شخصنے جو میرے پیچھے سفید خچر پر سوار تھا جس پر یمنی چادریں تھیں مجھ سے کہا جب غافر الذنب پڑھو تو کہو یاغافر الذنب اغفرلی ذنبی اور جب قابل التوب پڑھو تو کہو یاشدید العقاب لا تعاقبنی حضرت مصعب فرماتے ہیں میں نے گوشہ چشم سے دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا فارغ ہو کر میں دروازے پر پہنچا وہاں جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شخص تمہارے پاس سے گذرا جس پر یمنی چادریں تھیں انہوں نے کہا نہیں ہم نے تو کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا۔ اب لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ یہ حضرت الیاس تھے۔ یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے اور اس میں حضرت الیاس کا ذکر نہیں۔ (ابن کثیر)
توبہ کی امید
امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک شخص آکر مسئلہ پوچھتا ہے کہ میں نے کسی کو قتل کردیا ہے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے شروع سورت کی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا ناامید نہ ہو اور نیک عمل کئے جا۔ (ابن ابی حاتم)
حضرت عمر کے پاس ایک شامی کبھی کبھی آیا کرتا تھا ایک مرتبہ لمبی مدت تک وہ آیا ہی نہیں تو امیرالمومنین نے لوگوں سے اس کا حال پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے بہ کثرت شراب پینا شروع کردیا ہے۔ حضرت عمر نے اپنے کاتب کو بلوا کر کہا لکھو یہ خط ہے عمر بن خطاب کی طرف سے فلاں بن فلاں کی طرف بعداز سلام علیک میں تمہارے سامن اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے ساتھ کوئی معبود نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا توبہ کو قبول کرنے والا سخت عذاب والا بڑے احسان والا ہے جس کے سوا کوئی اللہ نہیں۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ خط اس کی طرف بھجوا کر آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اپنے بھائی کیلئے دعا کرو کہ اللہ تعالٰی اس کے دل کو متوجہ کردے اور اس کی توبہ قبول فرمائے جب اس شخص کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خط ملا تو اس نے اسے بار بار پڑھنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے اپنی سزا سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے کئی کئی مرتبہ اسے پڑھ کر رودیئے پھر توبہ کی اور سچی پکی دوبہ کی جب حضرت فاروق اعظم کو یہ پتہ چلا تو آپ بہت خوش ہوئے۔ اور فرمایا اسی طرح کیا کرو۔ جب تم دیکھو کہ کوئی مسلمان بھائی لغزش کھا گیا تو اسے سیدھا کرو اور مضبوط کرو اور اس کیلئے اللہ سے دعا کرو۔ شیطان کے مددگار نہ بنو.(ابن کثیر)
(معارف القرآن جلد٧، صفحہ ٥٨١-٥٨٣)
اس امت کو دی گئی ٣ چیزیں :
حضرت کعب احبار فرماتے ہیں اس امت کو تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں کہ ان سے پہلے کی کسی امت کو نہیں دی گئیں بجز نبی کے۔ دیکھو ہر نبی کو اللہ کا فرمان یہ ہوا ہے کہ تو اپنی امت پر گواہ ہے۔ لیکن تمام لوگوں پر گواہ اللہ تعالٰی نے تمہیں کیا ہے۔ اگلے نبیوں سے کہا جاتا تھا کہ تجھ پر دین میں حرج نہیں۔ لیکن اس امت سے فرمایا گیا کہ تمہارے دین میں تم پر کوئی حرج نہیں ہر نبی سے کہا جاتا تھا کہ مجھے پکار میں تیری پکار بول کروں گا لیکن اس امت کو فرمایا گیا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار قبول فرماؤں گا۔ (ابن ابی حاتم)
دعا:
ابو یعلی میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا چار خصلتیں ہیں جن میں سے ایک میرے لئے ہے ایک تیرے لئے ایک تیرے اور میرے درمیان اور ایک تیرے درمیان اور میرے دوسرے بندوں کے درمیان۔ جو خاص میرے لئے ہے وہ تو یہ کہ صرف میری ہی عبادت کر اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر۔ اور جو تیرا حق مجھ پر ہے وہ یہ کہ تیرے ہر عمل خیر کا بھرپور بدلہ میں تجھے دوں گا۔ اور جو تیرے میرے درمیان ہے وہ یہ کہ تو دعا کر اور میں قبول کیا کروں۔ اور چوتھی خصلت جو تیرے اور میرے اور دوسرے بندوں کے درمیان ہے وہ یہ کہ تو ان کیلئے وہ چاہ جو اپنے لئے پسند رکھتا ہے
دعا عبادت ہے :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دعا عبادت ہے پھر یہ آیت تلاوت کی کہ تمہارا رب فرماتا ہے مجھ سے مانگو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا
(سنن ابن ماجه 2/1258 ، حديث نمبر 3828 صحيح حديث)
عظمت والا عمل :
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ عظمت والا کوئی عمل نہیں کیوں۔ کیونکہ دعا میں انسان عاجزی کرتا ہے جو االلہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے (سنن الترمذي 5/455، حديث نمبر 3370 ، حسن حديث، عن ابی ہریرۃ ؓ )
تمہارا رب بڑا حیا کرنے والا اور سخی ہے جب بندہ اس کے آگے ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹانے میں اسے شرم آتی ہے ( سنن ابن ماجه 2/1271، حديث نمبر 3865 صحيح حديث، عَنْ سَلْمَانَ)
دعا نہ مانگنے سے الله ناراض ہوتے ہیں :
جو اللہ سے نہیں مانگتے اللہ ان سے ناراض ہوتے ہیں (رواہ الترمذی 5/456، حديث نمبر 3337 حديث حسن، عن ابی ہریرۃ ؓ)
گناہ کی معافی :
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند آتی ہے جب بندہ کہتا ہے کہ “اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور بے شک میں نے اپنے اوپرظلم کیا ہے پس آپ میرے گناہ معاف کر دیں بیشک آپ کے سوا کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں ہے ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب معاف بھی کرتا ہے اور سزا بھی دیتا ہے۔
(رواہ الحاکم فی المستدرک 6/90، حدیث نمبر 3438 حدیث صحیح)
اللہ کے خزانوں میں کمی نہیں :
حدیث قدسی ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں ” اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جو پرہیز گار ہے تو اس سے میری بادشاہت میں اضافہ نہ ہوگا اور اگر تمہارے اول اور آخر تمام انسان اور جن اس ایک
آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جوتم سب سے بڑا نافرمان ہو تو اس سے میری بادشاہت میں کمی نہ ہوگی اے میرے بندو! اگر تم سب ایک میدان میں جمع ہو جاؤ اور سب مل کر مجھ سے سوال کرو اور میں ہر ایک کو وہ دوں جو وہ مانگے تو ا س سے میری بادشاہت میں کوئی کمی نہ ہوگی اتنی بھی کمی نہ ہوگی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبو کر پانی سوئی کو لگے
( صحیح مسلم 4/1994، حدیث نمبر 2577)
دُعا موٴمن کا ہتھیار ہے، دین کا ستون ہے اور آسمان و زمین کا نور ہے۔“ (مسندِ ابویعلیٰ، مستدرک حاکم)
جنت کی کنجی
”دُعا رحمت کی کنجی ہے، وضو نماز کی کنجی ہے، نماز جنت کی کنجی ہے۔“ (دیلمی بسند ضعیف)
عافیت :
حدیث میں ہے کہ جس کے لئے دُعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے، اور اللہ تعالیٰ سے جتنی چیزیں مانگی جاتی ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ پسند ہے کہ آدمی عافیت مانگے۔ (ترمذی)
غافل کی دعا قبول نہیں :
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: ”اللہ تعالیٰ غافل دِل کی دُعا قبول نہیں فرماتے۔“ اور قرآن مجید میں ہے: ”کون ہے جو قبول کرتا ہے بے قرار کی دُعا، جبکہ اس کو پکارے۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دُعا کی قبولیت کے لئے اصل چیز پکارنے والے کی بے قراری کی کیفیت ہے۔ قبولیتِ دُعا کے لئے ایک اہم شرط لقمہ حلال ہے حدیث میں ارشاد ہے کہ: ”ایک شخص گرد و غبار سے اَٹا ہوا، پراگندہ بال، دُور دراز سے سفر کرکے (حج کے لئے) آتا ہے، اور وہ بڑی لجاجت سے ”یا رَبّ! یا رَبّ!“ پکارتا ہے، لیکن اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا، اس کی دُعا کیسے قبول ہو؟“
(صحیح مسلم)
جلدبازی منع ہے :
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: ”بندے کی دُعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ جلدبازی سے کام نہ لے۔ عرض کیا گیا: جلدبازی سے کیا مطلب؟ فرمایا: یوں کہنے لگے کہ میں نے بہت دُعائیں کیں مگر قبول ہی نہیں ہوتیں۔“
عاجز نہ ہوں:
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایہ دعا کے ساتھ عاجز نہ ہو کیونکہ دعا کے ساتھ کوئی ہلاک نہیں ہوتا (ابن حیان- حاکم ان انس رضی الله عنہ )