(١)عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ ؐ قَالَ لَا تَکْرَھُوْا الْفِتْنَۃَ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ فَاِنَّھَا تُبِیْرُ الْمُنَافِقِیْنَ۔
(رواہ ابونعیم، کنزالعمال ج١١،ص ١٨٩)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :اخیر زمانے میں فتنہ کو ناگوارمت سمجھناکیونکہ وہ منافقین کی ہلاکت کا باعث ہے ۔
فائدہ:حدیث بالا سے فتنوں کا ایک بہت بڑا فائدہ معلوم ہوا کہ اس سے مو منین و منافقین کی پہچان ہو جاتی ہے مومن فتنہ سے سرخرو ہو کر نکلتا ہے اور منافق اس میں مبتلا ہو کر دنیا و آخرت کی ہلاکت کا مستحق ٹھرتا ہے۔
زمانہ فتنہ میں دین پر قائم رہنا آسان نہیں ہو گا
(٢)عَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِک رضی اللہ عنہ ٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِؐ یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ اَلصَّابِرُ فِیْھِمْ عَلی دِینِہٖ کَالْقَابِضْ عَلَی الْجَمَرِ۔(ترمذی ج٢،ص٥٠طبع فاروقی کتبخانہ)
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں دین پر ثابت قدم رہنے والے شخص کی مثال ایسی ہو گی جیسے کوئی شخص مٹھی میں انگارے بھر لے۔
فائدہ: واقعی اللہ کے سچے پیغمبر نے بالکل سچ فرمایا آج دینی تعلیمات کی پابندی بالخصوص حرام سے مکمل طور پر بچنا بظاہر نا ممکن نظر آتا ہے (الا من رحم ربی) دین پر استقامت میں جو اندرونی و بیرونی مشکلات ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ۔
فتنوں کی جگہ میں دور رہنے میں خیر ہے
(٣)عَنْ اَبِی ھُرِیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِؐ سَتَکُوْنُ فِتَنٌ اَلْقَاعِدُ فِیْھَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمِ فِیْھَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِی وَالْمَاشِیْ فِیْھَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِیْ، مَنْ تَشَرَّفَ لَھَا تَسْتَشْرِفُہُ فَمَنْ وَجَدَ مَلْجَأً اَوْ مَعَاذاً فَلْیَعُذْ بَہٖ۔ (بخاری کتاب الفتن، باب قول النبیؐ تکون فتن القاعد فیھا الخ ج٢،ص ١٠٤١)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : عنقریب فتنے ظاہر ہوں گے جو شخص بیٹھا ہو گا وہ کھڑے ہوئے شخص سے، اور کھڑا ہوا شخص چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑ کرجانے والے سے بہتر ہو گا۔ جو ان کا نظارہ کرے گا وہ اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے جس شخص کو (اس وقت) کوئی پناہ گاہ ملے وہ اس میں چلا جائے۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ صرف نظارے بازی یا شوقیہ طورپر فتنہ کے موقع پر جانا بھی خطرہ سے خالی نہیں اور ارشادِ نبویﷺ کا مقصد بھی یہی ہے کہ فتنوں سے جس قدر دور رہیں دین کی سلامتی کے لیئے بہتر ہے۔
زمانہ فتنہ سے متعلق اہم ھدایات
(٤) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّؐ قَالَ اِمْلِکْ عَلَیْکَ لسَانَکَ وَاجْلِسْ فِیْ بَیْتِکَ وَخُذْ مَا تَعْرِفْ وَدَعْ مَا تُنْکِرُ وَعَلَیْکَ بِخَاصَّۃِ نَفْسِکَ وَدَعْ عَنْکَ اَمْرَ العَامََّۃِ۔(المستدرک للحاکم ج٤، ص٥٢٥)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: (زمانہ فتنہ میں) اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور اپنے گھر میں بیٹھے رہو، اچھے کام کرتے رہنا برے کام چھوڑ دینا ،اپنی فکر رکھنا اور لوگوں کے معاملات میں نہ پڑنا۔
فائدہ: آخری ہدایت اس مخصوص وقت سے متعلق ہے جبکہ اچھی بات کہنے سننے کا کوئی فائدہ مرتب ہونے کی اور دوسروں سے اس پر عمل کرنے کی سرے سے کوئی امید نہ ہو۔
فتنوں کے زمانے میں کہاں جائیں؟
(٥)عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِی رضی اللہ عنہ ِ اَنَّہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِؐ یُوْشَک اَنْ یَکُوْنَ خَیْرَمَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَتَّبِع بِھَا شَعْفَ الْجِبَالِ وَ مَوَاقِعَ القَطْرِ یَفِرُّ بِدِیْنِہٖ مِنَ الفِتَنِ۔ (بخاری باب من الدین الفرار من الفتن ج١، ص٧)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری wفرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: عنقریب ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں مسلمان کا سب سے اچھا مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کی جگہوں پر چلا جائے گا۔(اس کا مقصد ) اپنے دین کو فتنوں سے بچا کر لے جانا ہوگا۔
فائدہ : معلوم ہوا کہ جب فتنوں کا مقابلہ ممکن نہ ہو اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت نا ممکن ہو جائے تو آبادی سے دور گوشہ نشینی میں ہی عافیت ہے۔ ممکن ہے کہ اس طرف بھی اشارہ کہ ہم شہروں کی پر آسائش زندگی کی عادت ڈالنے کے بجائے آبادی سے دور اور فطرت سے قریب پُر مشقت مقامات پر رہنے کا بھی حوصلہ رکھیں۔
Load/Hide Comments