گھریلو اشیاء کی تقسیم

سوال: امی اور ابو کا کچھ سامان ہے گھر میں، اس کو تقسیم کرنے کے لئے بھائیوں کے حصے میں 2 جو حصے آتے ہیں تو کیا ان کے حصے میں دو دو چیزیں رکھنی ہوں گی؟

سامان کی لسٹ:

برتن، 4 صندوق، 1 بڑی پیٹی، 2 اسٹینڈ والے پنکھے، 1 چھت والا پنکھا، 2 سلائی مشین، 1 سلائی مشین کی پاوں والی ٹیبل، 1 بڑی لکڑی کی الماری، کمبل( تعداد بعد میں بتائیں گے)، 50 تکیے، 5 نیچے والے بچھونے، پرانا خراب فریج، امی کے کپڑے، ابو کے کپڑے بڑے بھائی کو نہیں دیے لیکن چھوٹے بھائی اور بیت السلام کو دے دیے( اس کا کیا حکم ہے کہ بڑے بھائی سے نہیں پوچھا)؟

الجواب باسم ملھم الصواب

مذکورہ صورت میں مرحوم والدین کی متروکہ ہر ہر چیز میں تمام ورثا کا مشترکہ حصہ ہے۔ اس اشتراک کو ختم کرنے کے لیے یا تو اس سازوسامان کو مارکیٹ ویلیو کے مطابق بیچ کر اس کی قیمت تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم کردیا جائے یا ان کی قیمت لگاکر قیمت کے مطابق سامان ہی شرعی حصص کے مطابق باہم تقسیم کرلیا جائے۔

مشترکہ استعمال کی چیز تقسیم سے پہلے دوسرے اصحاب سہام کی اجازت سے استعمال کر سکتے ہیں۔

نیز بڑے بھائی کی اجازت کے بغیر اشیاء کی تقسیم درست نہیں اس پر استغفار لازم ہے۔ اب اگر بڑے بھائی اس تقسیم پر راضی ہیں تو وہ تقسیم درست شمار ہوگی۔

1۔وفی الشامیۃ:

“لایجوز التصرف من مال غیره بلا إذنه ولا ولایته”.

(الدر المختار مع الشامية، کتاب الغصب، ۹/ ۲۹۱)

2۔وفی شرح المجلۃ:

“کل من الشرکاء في شرکة الملك أجنبي في حصة سائرهم، فلیس أحدهم وکیلاً عن الآخر، ولایجوز له من ثم أن یتصرف في حصة شریکه بدون إذنه”.

(شرح المجلة، الفصل الثاني في کیفیة التصرف، ۱/ ۶۰۱، رقم: ۱۰۷۵)

فقط۔ واللہ خیر الوارثین

اپنا تبصرہ بھیجیں