غیر شرعی رسومات سے بچنا

 فتویٰ نمبر:1077

سوال:-السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ ۔

دوست کی شادی ہے وہ ماشاءاللہ ایک متقی اور پرہیزگار انسان ہے ۔

اس کے ابو امی بڑا بھائی کہتے ہے کہ شادی دھوم دھام سے کریں گے اور یہ کہتا ہے کہ نہیں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کریں گے ۔

آپس میں سخت اختلافات ہے 

اس دوست نے مجھے کہا کہ اگر کوئی بھی غیر شرعی کام انجام ہوا شادی میں تو میں سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور چلا جاؤں گا 

اور سب کے ساتھ قطع تعلقی قائم کرلوں گا شادی بھی بھاڑ میں جائے ۔

اس بندے کا اس طرح قدم اٹھانا صحیح ہے؟

یا ابو امی بھائی کی بات مان لے؟

رہنمائی فرمایں.

عبدالرحمن

الجواب حامدۃ و مصلیہ 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

اس طرح ماں باپ کو چھوڑ کر جانا ٹھیک نہیں ہے بلکہ انہیں آرام سے سمجھائیں اور دنیا وآخرت کا نقصان سامنے رکھیں,اور انہیں بتائیں کہ اگر ہم کفار و فساق کے رسم و رواج اپنائیں گے تو ہمارا شمار بھی قیامت کے دن انہی کے ساتھ ہو گا,والدین سے قطع تعلقی کسی صورت جائز نہیں ہے.

عن ابن عمر قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (ابوداؤد شریف، کتاب اللباس، باب في لبس الشہرۃ)

عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من راٰی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یتسطع فبقلبہ وذٰلک أضعف الإیمان۔ (صحیح مسلم ۴۹، سنن الترمذي رقم: ۲۱۷۲)

قولہ: ’’فبلسانہ‘‘: أي فلیغیرہ بالقول وتلاوۃ ما أنزل اللّٰہ من الوعید علیہ وذکر الوعظ والتخویف والنصیحۃ … ثم اعلم أنہ إذا کان المنکر حراماً وجب الزجر عنہ، وإذا کان مکروہاً ندب، وشرطہما أن لا یؤدي إلی الفتنۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ۸؍۸۶۱-۸۶۲ رقم: ۵۱۳۷)

واللہ تعالی اعلم بالصواب 

بنت خالد محمود غفرلھا

9رجب المرجب 1439ھ

دارالافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں