حالات حضرت ذو القرنین

قرآن میں  حضرت ذو القرنین کی بابت یوں بیان ہوتا ہے :

وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا ﴿٨٣﴾

اور وہ تم سے ذو القرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ١٠٧* کہو اس کا کچھ حال تمہیں سناتا ہوں۔

ذوا لقرنین  سے متعلق سوال کرنے والے قریش  مکہ کے  کچھ لوگ  تھے  جن کو یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ کی نبوت  اور حقانیت  کا امتحان لینے کے لیے  تین سوال پوچھنے کا کہا، جن میں ایک سوال یہ تھا کہ  ذو القرنین  کون تھاا ور ا سکو کیا حال  پیش آیا  ؟ ( بحر محیط )  قرآن پاک کی سورۃ الکہف  میں حضرت ذو القرنین  کے سفر کی داستان  موجود ہے  جو اسلامی تاریخ   میں بڑی  اہمیت  کی حامل ہے ۔

ذو القرنین  نام ہے یا لقب؟

 ذو القرنین ایک لقب ہے  ۔ا ن کا نام ذو القرنین  کیوں ہوا اس کی وجہ سے بے شمار  اقوال اور سخت اختلافات ہیں ۔

1۔ قتادہ  سے نقل  ہے کہ ذو القرنین کا نام سکندر  تھا اور یہ سام بن نوح ؑ کی نسل سے تھے ۔

جبکہ حافظ  عمادا لدین ابن کثیر  میں فرماتے ہیں  :

” سکندر  اعظم   مشہور  یونانی بادشاہ تھا جو حضرت  ذوا لقرنین  کے تقریباً دو ہزار سال  بعد آیا ۔ سکندر  ایک بت پرست  تھا جبکہ  ذو القرنین  مسلمان اور  عادل بادشاہ تھے ۔

بعض نے کہا ان کی دو زلفیں  تھیں اس لیے ذو القرنین  کہلائے  ۔ بعض   نے کہا مشرق ومغرب  کے ممالک   پر حکمران  ہوئے اس لیے ذو القرنین  نام رکھا۔

 در حقیقیت  لفظ ذو القرنین  کو  ( horn )  سےا خذ  کیاگیاہے جس کا مطلب  ہے سینگ  ۔ ذو القرنین  کے لفظی معنی دو سینگ  والا ہے ۔

قرآن نے خود ان کا نام ذوالقرنین  نہیں رکھا۔  بلکہ یہ نام یہودا نے بتایا ، ان کے یہاں اس نام سے ان کی شہرت  ہوگی ۔

مولانا ابو الکلام  آزاد  نے سب سے پہلے بتایا ۔ در حقیقت   یہ  539ق  میں پیدا ہوئے   ۔ ایرانی بادشاہ   ہیں ، جن کو یونانی سائرس اورا یرانی  گورش بزرگ کے  نام سے جانتے ہیں ۔ یہ فارس کے بادشاہ تھے ۔

حضرت ذو القرنین  کی ابتدائی زندگی  :۔

مشہور یونانی  فلسفی   زینوفون  (  Xenophon)  نے سائرس  دی گریٹ کی زندگی  پر مبنی  کتاب    cyropoedio لکھی ۔ دور جدید  میں اس کتاب کو پڑھنا  ہر اس شخص کے لیے ضروری  سمجھاجاتا ہے جو سیاستدان بننا چاہتا ہے اس کتاب میں ذو القرنین  کی زندگی   کے  بارے میں تفصیل  سے لکھا ہے ۔ حیرت انگیز بات اس کی زندگی کے  ابتدائی دور ہیں ۔ زیہنوفون  بتاتے  ہیں  ، سائرس  در حقیقت  فارس کے بادشاہ  کے بیٹے تھے  مگر ان کی تربیت  کا بڑا حصہ ایک  عام فارس کے شہری  جیسا تھا ۔ فارس میں  بچوں کی تعلیم  پانچ چھ سال  سے شروع کردی  جاتی تھی  انہیں اخلاقیات  اور قوانین کی تعلیم  دی  جاتی ۔ نو دس سال کی عمر میں قاضی  کے پاس  بھیج دیاجاتا۔

جہاں وہ قاضی  کو فیصلہ  کرتے دیکھتے  بلکہ خود بھی فیصلہ  دیاکرتے  پھر بچوں  کو فوج  میں بھیج دیا جاتا ۔ 15 سال کی عمر تک  ان پر  لازم ہوجاتا  کہ وہ  شہر  کے میدان  میں سوتےا ور باری باری پہرہ دیتے  ۔ یہ تمام مراحل  سائرس نے بھی گزارے ۔ وہ خوش مزاج،ذہین ، نیک اور بہادر تھے ۔

 لفظ  ذو القرنین  کی وجہ تسمیہ :َ

ذو القرنین  جب ایران   کے بادشاہ تھے  اس وقت ایران  دوملکوں میں تقسیم  تھا۔ ایک فارس اور دوسرا میڈیا کہلاتا تھا۔ آپ نے ان دونوں کو ملا کر ا یک حکومت بنایا اور ایران کا سنہرا دور  شروع ہوا۔ ایرانیوں  نے بادشاہ   کے تاج  کےا وپر دو سینگ  لگالیے  اس طرح ان کا لقب  ذو القرنین ہوگیا۔ا یرانی تاریخ میں آپ کا  نام  سائرس یا خسرو مشہور ہے  ۔

یہودیوں کی دلچسپی  :۔ مولانا حفظ الرحمٰن  صاحب ؒ   کی تحقیق  کا خلاصہ  یہ ہے کہ کافر  بادشاہ بخت  ؔ نصر  نے جب بیت المقدس   پر حملہ کرکے اسے تباہ وبرباد  کردیااو ر تمام  لوگوں کو قیدی بنالیا  پھر انہیں بابل لے آیا۔ا س عرصے میں ایک شخصیت  سائرس کی ابھری۔  اس نے سب سے پہلے   عراق کو فتح کیا اور دوبارہ فلسطین   میں آباد کیا۔  بیت  المقدس  کو بھی دوبارہ آباد کیا ۔ گویا ذو القرنین   ان کے محسن ہیں  جن کے ذریعہ  سے اللہ تعالیٰ نے ان کو آزادی دلوائی ۔

 فتوحات :۔

 ” مغرب کا سفر “

حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَّوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ اِمَّآ اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّآ اَنْ تَتَّخِذَ فِيْهِمْ حُسْنًا  86؀ ( سورۃ الکہف )

 یہاں تک کہ جب وہ سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچے تو انہیں دکھائی دیا کہ وہ ایک دلدل جیسے (سیاہ) چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ (٤٣) اور وہاں انہیں ایک قوم ملی۔ ہم نے (ان سے) کہا : اے ذوالقرنین ! (تمہارے پاس دو راستے ہیں) یا تو ان لوگوں کو سزا دو، یا پھر ان کے معاملے میں اچھا رویہ اختیار کرو۔

 یاہں سورج ڈوبنے  سے مراد مغرب  بھی  ہوسکتا ہے یا  مغرب میں ایسی جگہ   جہاں کوئی آبادی   نہ ہو یا سمندر  کا کنارہ  جس کے نیچے   سیاہ کیچڑ  ہو اور پانی  سیاہ دکھائی  دے وہاں انہوں نے  ایک کافر قوم  کو شکست دی ۔ا للہ تعالیٰ نے ذو القرنین  کوا ختیار   دےد یا کہ آپ چاہیں تو انہیں   کفر کی سزا دیں یا ان کے ساتھ احسان کا معاملہ  کریں  ۔ ذوا لقرنین  نے دعوت  وتبلیغ  کے ذریعے  انہیں صراط مستقیم پر لانے کی کوشش کی  ۔ اور کہا :

قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ يُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَيُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكْرًا 87؀

انہوں نے کہا : ان میں سے جو کوئی ظلم کا راستہ اختیار کرے گا، اسے تو ہم سزا دیں گے، پھر اسے اپنے رب کے پاس پہنچا دیا جائے گا، اور وہ اسے سخت عذاب دے گا۔

وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَاۗءَۨ الْحُسْنٰى ۚ وَسَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا يُسْرًا 88؀ۭ

البتہ جو کوئی ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا تو وہ بدلے کے طور پر اچھے انجام کا مستحق ہوگا، اور ہم بھی اس کو اپنا حکم دیتے وقت آسانی کی بات کہیں گے۔

( بحرہ  ایجین کے اس ساحل کا پانی بہت گدلا رہتا ہے  )

ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا  89؀

اس کے بعد وہ ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑے۔

اللہ تعالیٰ  نے ہرقسم کاسامان ، دنیا  کے ہر خطے میں پہنچنے کے لیے انہیں دیاہواتھا۔

 مشرق کا سفر  :۔

حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَـطْلُعُ عَلٰي قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًا 90؀ۙ

یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہورہا ہے جسے ہم نے اس (کی دھوپ) سے بچنے کے لیے کوئی اوٹ مہیا نہیں کی تھی۔

 اب ذو القرنین  نے   مشرق کی مہم  تیار کی  اور سوج  کے طلوع  ہونے کی جگہ   پہنچے  ۔ تاریخ  سے ثابت ہے  کہ وہ مکران  کے ساحل  تک آئے  ۔ یہاں وحشی  قبائل آباد تھے  انہیں رہنے سہنے کا  ڈھنگ نہ تھا۔ دھوپ سے بچنے کے لیے مکان  ، خیمہ یا لباس وغیرہ استعملا  نہ کرتے تھے  ۔ا س قوم  کو بھی آپ  نے فتح کیا اور وہی معاملات  کیے جو مغربی  قوم کے ساتھ کئے تھے  ۔

شمال کا سفر  :۔

حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًا ۙ لَّا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ قَوْلًا 93؀ (سورہ الکہف)

یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے تو انہیں ان پہاڑوں سے پہلے کچھ لوگ ملے جن کے بارے میں ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی بات نہیں سمجھتے۔

ذو القرنین سفر  کرتے وہاں  جا پہنچے  تو ترکوں  کی سر زمین   پر آمینیا اور آذر بائیجان   کے نزدیک واقع  ہے ۔ وہاں  دو پہاڑوں کے درمیان سے ایک قوم نکلتی ہے ۔ کھیت کھلیان  تباہ کرتی،  ترکوں کو  بے دردی سے قتل کرڈالتی  اور غلام بناکر لے جاتی ۔ وہاں کے لوگوں  نے ذو القرنین  سے درخواست کی ۔ ہم آپ کو  کچھ رقم  جمع  کردیں تاکہ آپ ہمارے  اور ان کے درمیان  کوئی رکاوٹ  بنادیں ۔ یہ یاجوج ماجوج  تھے ۔

قَالُوْا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ اِنَّ يَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًاعَلٰٓي اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا 94؀

انہوں نے کہا : اے ذوالقرنین ! یاجوج اور ماجوج اس زمین میں فساد پھیلانے والے لوگ ہیں۔ تو کیا ہم آپ کو کچھ مال کی پیش کش کرسکتے ہیں، جس کے بدلے آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی دیوار بنا دیں؟

ذوالقرنین نے جواب دیا  :

قَالَ مَا مَكَّــنِّيْ فِيْهِ رَبِّيْ خَيْرٌ فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ اَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا 95

ذوالقرنین نے کہا : اللہ نے مجھے جو اقتدار عطا فرمایا ہے، وہی (میرے لیے) بہتر ہے۔ لہذا تم لوگ (ہاتھ پاؤں کی) طاقت سے میری مدد کرو، تو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔

انہوں نے کہا  میرے رب نے جو مجھے اختیار دیاہے  وہ  بہت  ہے  لہذا محنت مزدوری  سے میری  مدد کرو۔و ہ لوگ  اس حقیقت  سے ناواقف تھے ذو القرنین  ایک فرد نہیں تھے  بلکہ  قوت میں پوری قوم اور فوج تھے  بالکل حضرت سلیمان علیہ السلام  کی طرح  ۔

بادشاہ نے لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے   دونوں پہاڑوں کے درمیان کھڑے کیے اور لوگوں سے کہا ان کو دھکاؤ جب وہ لال  انگارا ہوگئی تو اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈالا گیا تاکہ  لوہے کے ٹکڑے  مضبوطی سے  آپس میں جڑجائیں اور چکناہٹ  کے سبب کوئی  اس پر چڑھ  نہ سکے ۔

اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ ۭ حَتّٰى اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا  ۭ حَتّٰى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا  ۙ قَالَ اٰتُوْنِيْٓ اُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا 96؀ۭ

مجھے لوہے کی چادریں لادو، یہاں تک کہ جب انہوں نے ( درمیانی خلا کو پاٹ کر) دونوں پہاڑی سروں کو ایک دوسرے سے ملا دیا تو کہا کہ : اب آگ دہکاؤ، (٤٩) یہاں تک کہ جب اس (دیوار) کو لال انگارا کردیا تو کہا کہ : پگھلا ہوا تانبا لاؤ، اب میں اس پر انڈیلوں گا۔

 فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْهَرُوْهُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا 97؀

چنانچہ (وہ دیوار ایسی بن گئی کہ) یاجوج ماجوج نہ اس پر چڑھنے کی طاقت رکھتے تھے، اور نہ اس میں کوئی سوراخ بنا سکتے تھے۔

اس کا طول وعرض  تو اللہ ہی کو معلوم ہے ۔ مگر کہاجاتاہے  اس کی لمبائی  پچاس میل، اونچائی   290 فٹ  اورچوڑائی  10 فٹ ہے۔

قرآن کے مطابق ذو القرنین  نے جن دو پہاڑوں   کے درمیان سفر  کیا وہ  Caucasian ‘ ماؤنٹین  یعنی ” آزبک” کے پہاڑ  کہلاتے  ہین ۔ دو دریاؤں      black sea   یعنی بحرہ اسود اور کیپٹین  سی تک یہ سلسلہ  پھیلا ہوا ہے ۔ بحرہ اسود  دنیا  کا واحد سندر ہے  جس کا پانی کالا ہے۔  اس پہاڑی  سلسلے میں ایک  جگہ   بہت ہی بلند ترین  پہاڑ ہیں جن کے درمیان وہ واحد راستہ  ہے جہاں سے آیا جایا جاسکتا ہے  مگر یہ راستہ  مکمل برف سے ڈھکا ہوا ہے اس کے اندر  لوہا اور دھات  موجود ہے ۔

جب دیوار تیار ہوگئی  تو بطور  شکر ذو القرنین  نے  کہا:   ” یہ میرے رب  کی رحمت  ہے مجھ پر اور اس  قوم  پر  جنہیں یاجوج ماجوج  ستاتے تھے ۔ رب کا وعدہ  آئے گا دیوار گر کر زمین  کو برابر  کردےگا ۔ بے شک  میرے رب  کا ودہ سچاہے ۔

قَالَ ھٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّيْ  ۚ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ رَبِّيْ جَعَلَهٗ دَكَّاۗءَ  ۚ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّيْ حَقًّا 98

ذوالقرنین نے کہا : یہ میرے رب کی رحمت ہے ( کہ اس نے ایسی دیوار بنانے کی توفیق دی) پھر میرے رب نے جس وقت کا وعدہ کیا ہے جب وہ وقت آئے گا تو وہ اس (دیوار) کو ڈھا کر زمین کے برابر کردے گا، (٥٠) اور میرے رب کا وعدہ بالکل سچا ہے۔

 ذوالقرنین نے کہا : یہ میرے رب کی رحمت ہے ( کہ اس نے ایسی دیوار بنانے کی توفیق دی) پھر میرے رب نے جس وقت کا وعدہ کیا ہے جب وہ وقت آئے گا تو وہ اس (دیوار) کو ڈھا کر زمین کے برابر کردے گا، (٥٠) اور میرے رب کا وعدہ بالکل سچا ہے۔کچھ مورخین  دیوار  چین کو یاجوج ماجوج  کی دیوار قرار  دیتے  ہیں  جبکہ یہ مشرق میں واقع  ہے اس میں  دروازے   ہیں جو کئی  مرتبہ  ٹوٹ بھی چکی ہے جبکہ قرآن  ذو القرنین  کی بنائی ہوئی  دیوار کو شما ل میں  بتاتا ہے  جو ایک مرتبہ  اللہ کے حکم سے  گرے گی ۔

یاجوج ماجوج کون ہیں؟

 تاریخی واقعات  ا س بات پر متفق ہیں  کہ حضرت نوح ؑ   کے ایک بیٹے  ” یافث ”  کی اولاد میں سے ہیں ۔ خانہ بدوش اور وحشی  قبائل تھے ۔ان کی تعداد میں  تیزی سے اضافہ ہوا۔ ذو القرنین  کےز مانے تک مختلف  قبائل ، قوموں  اور آبادیوں  میں پھیل چکے   تھے۔ یہ ضروری نہیں کہ یاجوج ماجوج  کی تمام قومیں سد  ذوا لقرنین کے پیچھے  محصور ہوں  البتہ قبائل  قتل وغارت  گری کرنے والے  اور وحشی تھے  وہ  سید ذو القرنین  کے ذریعے روک  دیے گئے ۔

 جب سے اب تک یاجوج ماجوج  اس کوشش میں  لگے  ہوئے ہیں کس طرح دیوار   کو گراکر  باقی دنیا سے جاملیں ۔ یہ روز دیوار  کو توڑتے ہیں  جب تھوڑا ساحصہ رہ جاتا ہے  اور سورج  غروب ہونے لگتا ہے تو ان کا سردار  واپسی کا حکم  دیتا ہے  کہ باقی کا کل کریں گے  مگر  اگلے روز  دیوار  کہیں زیادہ  مضبوط ہوچکی  ہوتی ہے ۔ جب یاجوج ماجوج  کے خروج  کا وقت آپہنچے گا تو  وہ تمام  دن دیوار  میں سراخ کریں گے اور  ہر روز کی طرح  ان کا سردار  شام کو واپسی کا حکم دے گا اور کہے گا  باقی کام کل کریں گے  ان شاء اللہ ۔

اس سے پہلے  کبھی انہوں نے  یہ   الفاظ استعمال  نہ  کیے  ۔ا ن الفاظ کی  برکت سے دوسرے روز  دیوار کو ویسا ہی پائیں گے جیسا چھوڑ کر گئے تھے ۔ انتہائی  پر جوش  ہوکر دیوار  گرادیں گے  اور زمین   پر پھیلتے  چلے جائیں  گے  جہاں  سے گزرے  گےتباہی  پھیلائیں گے   مخلوق  خدا کو اپنے  شروفساد  کا نشانہ  بنائیں گے  ۔ا ن کا پھیلا گروہ  جب  بھاتا ہوا جھیل ” طبریہ ”  سے گزرے گا تو حدیث  مبارکہ    کے مطابق وہ سارا پانی  پی جائے گا  جب آخری  گروہ  وہاں پہنچے گا تو کہے گا کبھی یہاں  پانی ہوا کرتا تھا۔ ( صحیح مسلم) 

بحر طبریہ  اسرائیل میں  تازہ پانی  کی سب سے   بڑی جھیل  ہے جو تقریباً 65  مربہ  میل پر  پھیلتی  ہوتی ہے  اس کا ذکر  توریت  وانجیل  میں بھی آیا  ہے حضرت عیسیٰ  ؑ نے بڑ احصہ  ایسی جھیل  کے ساحل پر گزارا  یہاں سے قتل وغارت  کرتےہوئے  یاجوج ماجوج  بیت المقدس  تک   ہینچےگا اور اعلان کریں گے  زمین  پر ہمارا قبضہ  ہوچکا اب  ہم آسمانوں  پر بھی قبضہ   کریں اور آسمان  کی  طرف   تیر  پھینکیں  گے  جو خون آلود  واپس  آئیں گے ۔

حَتّٰٓي اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ 96؀ۃسورہ الانبیاء

یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا، اور وہ ہر بلندی سے پھسلتے نظر آئیں گے۔ (٤٥)

 وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا 99۝ۙسورہ کہف

اور اس دن ہم ان کی یہ حالت کردیں گے کہ وہ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے، (٥١) اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو ایک ساتھ جمع کرلیں گے۔

 کوئی ان کا مقابلہ نہ کرپائے گا حضرت عیسیٰ  ؑ  اللہ کے حکم سے  مسلمانوں  کو لے کر کوہ طور پناہ لیں گے  اور عام لوگ محفوظ  مقامات پر بند  ہوکر اپنی جانیں  بچائیں گے  ۔ یہ وہ شیطان  قوم ہوگی  جس میں  ہرقسم کی  برائی پائی جائے گی ۔

حضرت  عیسی ٰؑ علیہ السلام اور تمام مسلمان  مل کر  اللہ سے دعا کریں گے  ۔ا للہ تعالیٰ  ان کی  گردنوں  میں ایسا کیڑ اپیدا  کرے گا جو ان کی ہلاکت کا باعث  بنےگا۔ پوری  زمین ان کی لاشوں سے بھری ہوگی ۔ پھر اللہ کے حکم  سے بارش  برسائی جائے گی  جو زمین کو  ان  لاشوں سے پاک  کردے گی ۔

 ان کے نکلنے کا وقت ظہور  مہدی ؒ  پھر خروج دجال  کے بعد ہوگا۔ جبکہ  عیسیٰ ؑ  نازل ہوکر  دجال کو  قتل    کرچکیں   ہوں گے ۔ ان کے نکلنے کی ایک علامت  بحریہ  طبریہ کے پانی کا  تیزی سے کم ہونا ہے ۔

 کیا ذوا لقرنین   نبی تھے ؟

حضرت عمرو بنا لعاص  کی جانب   یہ نسبت کی جاتی ہے کہ وہ ذؤ القرنین  کو نبی مانتے تھے۔

 حضرت علی رضی اللہ  عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ،  امام رازی رضی اللہ عنہ، ابن  کثیر  اور ان کے علاوہ  سلف صالحین  اور متاخرین   کی اکثریت اس کی قائل  ہے کہ ذوا لقرنین  نبی نہیں تھے  بلکہ عادل  صالح بادشاہ تھے ۔

ذوا لقرنین کا زمانہ :۔

زمانے کے لحاظ سے علماء کے اقوال  مختلف  ہیں ۔

ابن کثیر کے نزدیک ان کا زمانہ اسکندر   یونانی  مقدونی سے  دو ہزار سال پہلے  حضرت ابراہیم علیہ السلام  کا زمانہ ہے ا ور ان کے وزیر   حضرت خضر علیہ السلام  تھے۔ اور آپ حج  کے لیے پہنچے  حضرت ابراہیم  ؑ کے ساتھ  طواف کیا  پھر قربانی کی ۔ ( البدایہ  ص 108 ج 2)

حضرت ذوا لقرنین کی قبر :

جب حضرت ذوا لقرنین کی قبر کی کھدائی کی  گئی  تو وہاں ایک مجسمہ  دریافت ہوا جس میں نمایاں طور پر تاج  میں دو سینگ  لگے ہوئے تھے اور درمیان میں تین ستون بنائے ہیں جو دنیا کے وہ تین حصے ہیں جہاں ذوالقرنین  گئےا ور فتح  کیا۔ا یک حصہ افغانستان  ،  بلوچستان  ،ا یران کا ہے ۔ دوسراحصہ  آرمینیا ،ا سیریااور ترکی کا علاقہ ۔ تیسرا حصہ  عراق کا علاقہ ہے۔

 بعض روایات میں ہے چار بادشاہ ایسے گزرے  جنہوں نے پوری دنیا پر حکومت کی،  دو مومن او ر دوکافر ۔

مومن بادشاہ  حضرت سلیمان  علیہ السلام  اور ذوا لقرنین ہیں۔ جبکہ  کافر  نمرود اور بخت نصر  ہیں ۔

ذوا لقرنین ایک صالح اور عادل بادشاہ تھے  اس لیے  شمالی سیاحت  میں اس قوم سے ٹیکس لینے سے انکار کردیا اور صاف کہا :ا للہ  نے مجھے حکومت اس  لیے نہیں دی کہ اپنی ذات  پر خرچ  کرو ں  بلکہ  اس کے ذریعے مخلوق خدا کی خدمت  کروں ۔ آپ نے جو بھی ملک فتح  کیا وہاں کی رعایا کے ساتھ عفو ودرگزر  کا معاملہ  فرمایا۔

آب حیات کا تذکرہ :۔ بعض علماء  نے  حضرت خضرعلیہ السلام  کو حضرت ذوا لقرنین  کا وزیر قرار دیاہے ۔اور ایک روایت منقول کی ہے ۔

ذوا لقرنین  نے کتابوں میں دیکھا تھا، اولاد  سام میں سے ایک  شخص چشمہ حیات  سے پانی پیے گا اور اسے موت نہ آئے گی  ۔ یہ دیکھ کر  وہ چشمہ  حیات  کی طلب   میں مشرق ومغرب روانہ ہوئے ۔ حضرت خضر علیہ السلام  بھی آپ  کے ساتھ تھے ۔ حضرت خضر علیہ السلام  تو چشمہ حیات  تک پہنچ گئے  اور پانی بھی پی لیا مگر ذو القرنین  کے مقدر میں نہ تھا وہ پانی  پی پائے پھر مغرب  کی جانب روانہ ہوگئے ۔

حضرت خضر علیہ السلام  کی تاریخ  پیدائش کا تو کسی کو علم نہیں مگر  آپ کے زندہ ہونے اور قیامت تک کے زندہ ہونے کے آثار ملتے ہیں۔

سورہ بنی اسرائیل میں ذو القرنین کا ذکر ہے :۔

مولانا حافظ الرحمٰن  نے اپنی کتاب  قصص القرآن میں ذو القرنین  کے متعلق تفصیل  سے بحث  کی ہے۔ ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم  کی سورۃ بنی اسرائیل  میں دو مرتبہ ذکر ہے ۔ فرمایا  :

فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ ۭ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا  

چنانچہ جب ان دو واقعات میں سے پہلا واقعہ پیش آیا تو ہم نے تمہارے سروں پر اپنے ایسے بندے مسلط کردیے جو سخت جنگجو تھے، اور وہ تمہارے شہروں میں گھس کر پھیل گئے۔  اور یہ ایک ایسا وعدہ تھا جسے پورا ہو کر رہنا ہی تھا۔

اس میں قوت والے لوگ بخت نصر اور اس کالشکر  ہے جس نے بیت المقدس میں چالیس ہزارا ور بنی اسرائیل کو قتل کیااور ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قیدی بناکر بابل لےگیا اس کے بعد قرآن نے فرمایا:

ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا 

پھر ہم نے تمہیں یہ موقع دیا کہ تم پلٹ کر ان پر غالب آؤ، اور تمہارے مال و دولت اور اولاد میں اضافہ کیا، اور تمہاری نفری پہلے سے یادہ بڑھا دی۔

بنی اسرائیل کی نجات کا یہ واقعہ سائرس  بادشاہ کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوا جن کا لقب ذوا لقرنین تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں