سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ کے باسی تھے اور خاندان قریش سے تعلق رکھتے تھے۔آپ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ماموں زاد بھائی تھے۔والد کا نام قیس بن زائدہ تھا والدہ ام مکتوم کا نام عاتکہ بنت عبداللہ تھا۔
آپ رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں شامل تھے، پیدائشی نابینا تھے مگر بڑے پرعزم اور باہمت ہے۔جب علم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی تو بالا تاخیر ہجرت کے لئے تیار ہوگئے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی کا موذن بھی مقرر فرمایا سب سے پہلے موذن بلال بن رباح تھے یہ دونوں حضرات باری باری اذان و اقامت کہتے۔بعد میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” جو شخص اذان کہے وہی اقامت کہنے کا زیادہ حقدار ہے “۔
رمضان المبارک کے دوران سحری کی پہلی اذان بلال رضی اللہ عنہ دیتے تھے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جب بلال اذان دیں تو سحری کھانا شروع کر دیا کرو جب عبداللہ بن ام مکتوم اذان دیں تو کھانا پینا چھوڑ دو کیونکہ سحری کا وقت ختم ہوگیا”
عبداللہ بن ام مکتوم اسلام کے شیدائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرنے والے تھے یہی وجہ تھی کہ مختلف اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے حاضر ہو جاتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوات یا دوسرے امور کے لیے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو انہیں اپنا قائم مقام اور نماز پڑھانے کے لئے مقرر کر جاتے۔
مدینہ طیبہ میں بطور امام عبداللہ بن ام مکتوم کی تقرری سے معلوم ہوتا ہے کہ نابینا امام کی امامت درست ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کے حافظ اور مدینہ منورہ میں لوگوں کو قرات سکھاتے تھے آپ رضی اللہ عنہ سے کئی احادیث منقول ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ پر قرآن کریم میں سورہ عبس کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں :
عَبَسَ وَتَوَلّـٰى (1)
پیغمبر چیں بجیں (ناخوش) ہوئے اور منہ موڑ لیا۔
اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى (2)
کہ ان کے پاس ایک اندھا آیا۔
وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّـهٝ يَزَّكّــٰى (3)
اور آپ کو کیا معلوم کہ شاید وہ پاک ہوجائے۔
اوْ يَذَّكَّرُ فَـتَنْفَعَهُ الـذِّكْرٰى (4)
یا وہ نصیحت پکڑ لے تو اس کو نصیحت نفع دے۔
اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى (5)
لیکن وہ جو پروا نہیں کرتا۔
فَاَنْتَ لَـهٝ تَصَدّ ٰى (6)
سو آپ کے لیے توجہ کرتے ہیں۔
وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّـٰى (7)
حالانکہ آپ پر اس کے نہ سدھرنے کا کوئی الزام نہیں۔
وَاَمَّا مَنْ جَآءَكَ يَسْعٰى (8)
اور لیکن جو آپ کے پاس دوڑتا ہوا آیا۔
وَهُوَ يَخْشٰى (9)
اور وہ ڈر رہا ہے۔
فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَـهّـٰى (10)
تو آپ اس سے بے پروائی کرتے ہیں
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم روسائے قریش کو تبلیغ فرما رہے تھے بعض روایات میں آیا ہے وہ لوگ عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل ابن ہشام، امیہ بن خلف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس دے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کہ ابن ام مکتوم آگئے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ عرض کرنا چاہتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو سمجھانے میں اتنا منہمک تھے کہ توجہ نہ دے سکے اور ابن ام مکتوم کا اس طرح خطاب کرنا نہ گوار لگا،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اٹھ کر جانے لگے تو آپ اثار وحی ظاہر ہوئے اور سورہ عبس کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اس کے بعد جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی خاطر کرتے تھے۔
ناگواری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابن ام مکتوم پکے مسلمان تھے وہ دوسرے اوقات میں بھی سوال پوچھ سکتے تھے برخلاف روسائے قریش کے جو ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ اتے تھے،اس وقت یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن رہے تھے جس سے ان کے ایمان لانے کی توقع کی جا سکتی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو ناپسندیدہ قرار دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ یہ صحابی جو کچھ دریافت کر رہا ہے اس کا اثر یقینی ہے جب کہ غیروں سے گفتگو کا اثر یقینی نہیں ۔
دعوت اسلامی کا اصول :
قرآن اس بات کی وضاحت کر رہا ہے جو شخص آپ سے اور آپ کے دین سے بے رخی برت رہا ہے آپ اس کے درپے ہیں کہ کس طرح مسلمان ہو جائے حالانکہ اگر وہ مسلمان نہیں ہوتا تو آپ پر کوئی الزام نہیں اور وہ شخص دوڑتا ہوا طالب علم کے لئے آیا آپ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح اور ان کو پکا مسلمان بنانا غیر مسلم کو اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے زیادہ اہم ہے۔ واللہ اعلم
جہاد کی خواہش :
اللہ تعالی نے جہاد فرض کیا تو عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی بڑی خواہش تھی کہ کاش وہ بھی بینا ہوتے تو وہ بھی جہاد میں حصہ لیتے اور شہید کا رتبہ پاتے ۔
جنگ قدسیہ اور ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی شہادت :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دور شروع ہوا تو فارس اور روم کے خلاف جہاد میں تیزی آگئی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں جنگ یرموک کے معرکے میں دشمن نے بری طرح شکست کھائی تو عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مجلس میں پہنچے ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں مرحبا کہا: اھلاوسھلا عبداللہ بن ام مکتوم! فرمائے آپ کا میرے پاس کیسے آنا ہوا؟ ام مکتوم نے فرمایا:” امیرالمومنین میں نے سنا ہے آپ مجوسیوں سے ٹکر لینے کے لیے قادسیہ کے میدان میں تیاری کر رہے ہیں۔”سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:” ہاں عبداللہ آپ نے درست سنا ہے”۔ ام مکتوم نے فرمایا :”میں بھی اس لشکر کے ساتھ جانا چاہتا ہوں زرہ پہنا کر صفوں کے درمیان کھڑا کر دیں اسلام کا جھنڈا میرے ہاتھ میں پکڑا دیں میں تو نابینا ہوں اپنی جگہ پر ڈٹا رہوں گا اس سے مجاہدین کا حوصلہ ملے گا۔”
امیرالمومنین ان کے دلائل کے سامنے خاموش ہو گئے یوں بھی وہ کوئی عام صحابی تو نہیں، سابقون اولون میں سے تھے اور ان کے لئے قرآن پاک میں سورۃ عبس کی ابتدائی آیات نازل کی گئی تھی۔ وہ جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے ۔
عبداللہ بن ام مکتوم سے متعلق روایت :
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دو بیویوں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف فرما تھے کہ اچانک حضرت عبداللہ ابن مکتوم آگئے حضور نے فرمایا:” ان سے پردہ کرو “۔
انہوں نے عرض کیا:” یا رسول اللہ صلی وسلم یہ تو نابینا ہیں “
فرمایا:” تم تو نابینا نہیں ہو ۔”
(جامع الترمذی، کتاب الادب)