حضرت ثعلبہ کے بار ے میں مشہور واقعہ کی تحقیق

حضرت ثعلبہ نامی ایک مشہور صحابی ہیں ،ان کے بارے میں ایک یہ قصہ معروف ہے کہ ان کی ایک مرتبہ کسی گھر میں موجود اجنبی عورت پر نظر پڑگئی ،  جس پر یہ بہت زیادہ ناد م اور پشیما ن ہوئےاور اسی ندامت ہی ندامت میں اپنا گھر چھوڑ کر ایک جنگل بیابان کی طرف چل دیے اور وہاں رہنے لگے

حضورﷺ کو بذریعہ وحی ان کے بارے میں اطلاع دی گئی چنانچہ آپﷺ نے چند صحابہ کرام کو ان کو لانے  کے لیے مبعوث فرمایا ،اس کے بعد یہ ایک لمبا واقعہ ہے ،جس میں ان کی وفات کا ذکر بھی ہے کہ یہ فوت بھی اسی حالت خوف میں ہوئے ۔

کیا اس نام کے کوئی صحابی ہیں؟

اگر ہیں تو ان کے بارے میں اس طرح کا کوئی واقعہ کتب سنت سے ثابت ہے؟

مستفتی :حضرت مولانا محمد رمضان صاحب دامت برکاتہم العالیہ                                                                                                         

(بمعرفت استاذ محترم مولانا صدیق صاحب)                                                                                                                

الجواب حامدا و مصلیا

صحابہ کرام کی جماعت میں سوال میں ذکر کردہ نام سے موسوم شخص حضرت ثعلبہ بن عبد الرحمن کا ذکر ملتا ہے ،جو کہ انصار میں سے تھے اور حضورﷺ کے خادم تھے۔

سوال میں ذکر کردہ مضمون سے ملتا جلتا حضرت ثعلبہ سے متعلق ایک طویل واقعہ حافظ ابو نعیم اصفہانی (متوفی)رحمہ اللہ کی (حلیۃ الاولیاء ) اور (معرفۃ الصحابہ)میں ،حافظ عثمان بن عمر الدراج (متوفی359)رحمہ اللہ کی(جزء الدراج )میں اور یحی بن الحسین شجری (متوفی499)رحمہ اللہ کی (ترتیب الامالی الخمیسۃ)میں حضر ت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کےحوالے سے سند کے ساتھ منقول ہے

چنانچہ ابو نعیم رحمہ اللہ کی سند سے وہ واقعہ درج ذیل ہے :

حدثنا ابو بکر محمد بن احمد البغدادی بن المفید،حدثنا موسی بن ھارون،و محمد بن اللیث الجوھری،قالا:حدثنا سلیمان بن منصور بن عمار،حدثنا ابی،عن المنکدر بن محمد،عن ابیہ،عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ،ان فتی من الانصار یقال لہ:ثعلبہ بن عبد الرحمن اسلم، فکان یخدم النبیﷺ،بعثہ فی حاجۃ فمر بباب رجل من الانصار،فرای امراۃ الانصاری تغتسل،فکرر النظر الیھا،و خاف ان ینزل الوحی علی رسول اللہﷺ، فخرج ھاربا علی وجھہ،فاتی جبالا بین مکۃ و المدینۃ فوجلھا،ففقدہ رسول اللہﷺ اربعین یوما و ھی الایام التی قالوا:ودعہ ربہ و قلاہ۔

ثم ان جبریل نزل علی رسول اللہﷺ، فقال: یا محمد! ان ربک یقراْ علیک السلام، و یقول: ان الھارب من امتک بین ھذہ الجبال یتعوذ بی من ناری، فقال رسول اللہﷺ: یا عمر و سلیمان! انطلقا فاتیانی بثعلبۃ بن عبد الرحمن، فخرجا فی انقاب المدینۃ،

فلقیھما راعٍ من رعاء المدینۃ، یقال لہ: رفافۃ(ذفافۃ)۔

فقال لہ عمر: یا رفافہ(ذفافہ) ھل لک علم بشاب بین ھذہ الجبال؟ فقال لہ رفافۃ(ذفافۃ): لعلک ترید الھارب من جھنم،فقال لہ عمر: و ما علمک انہ ھارب من جھنم؟ قال: لانہ اذا کان جوف اللیل خرج علینا من ھذہ الجبال واضعاً یدہ علی راْسہ و ھو یقول یالیتک قبضت روحی فی الارواح و جسدی فی الاجساد، و لم تجرد فی فصل القضاء قال عمررضی اللہ عنہ : ایاہ نرید۔

1:  یہ نام مختلف کتب میں فرق کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ،چنانچہ ابن الاثیر جزری،حفظ ابن حجر عسقلانی،جلال الدین سیوطی اور بعض دوسرے حضرات کے ہاں یہ نام ذال کے

ساتھ “ذفافۃ”نقل کیا گیا ہے ،اسی طرح ابو نعیم اصبانی کی (معرفۃ الصحابۃ) میں بھی یہ نام ذال کے ساتھ “ذفافۃ”منقول ہے ۔ البتہ ابو نعیم کی ایک دوسری کتاب (حلیۃ الاولیاء)کے مطبوعہنسخے میں یہ نام ر کے ساتھ “رفافہ”درج ہے اور(موضوعات ابن الجوزی )میں یہ نام دال کے ساتھ “دفافہ”لکھا ہوا ہے ۔

چونکہ مشہور نام “ذفافہ” ہے اور صحیح بھی یہی معلوم ہوتاہے،جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کبار نے یہی نام نقل فرمایا ہے ؛اس لیے ہم نے بحث کے متن میں “حلیۃ الاولیاء” کی عبارت (یعنی :رفافہ) کے ساتھ بین القوسین المربعین”ذفافہ ” نام بھی درج کر دیا ہے۔

 قال: فانطلق بہم رفاقۃ(ذفافۃ)، فلما کان فی جوف اللیل خرج علیھم من بین تلک الجبال واضعاً یدہ علی ام راْسہ و ھو یقول یالیتک قبضتَ روحی فی الارواح و جسدی فی الاجساد، و لم تجردنی لفصل القضاء، قال: فغدا علیہ عمر، فاحتضنہ ،فقال: الامان، الخلاص من النار، فقال لہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فقال: یا عمر! اھل علم رسول اللہﷺ بذنبی؟ قال: لا علم لی الا انہ ذکرک بالامس، فبکی رسول اللہﷺ فارسلنی انا و سلمان رضی اللہ عنہ فی طلبک، فقال: یا عمر! لا تدخلنی علیہ الا ھو یصلی و بلال رضی اللہ عنہ یقول: قد قامت الصلوۃ، قال: افعل۔

فاقبلا بہ الی المدینۃ فوافقوا رسول اللہﷺ و ھوفی  صلوۃ الغداۃ، فبدر عمر و سلمان رضی اللہ عنھما الصف، فما سمع قراءۃ 

رسول اللہﷺ حتی خر مغشیاً علیہ، فلما سلم رسول اللہﷺ، قال: یا عمر و سلمان! ما فعل ثعلبۃ بن عبد الرحمن، قالا: ھو ذا یا رسول اللہ! فقام رسول اللہﷺ قائما، فقال ثعلبۃ قال: لبیک یا رسول اللہ! فنظر الیہ فقال: ما غیبک عنی؟ قال: ذنبی یا

رسول اللہ! قال: افلا ادلک علی آیۃ تکفر الذنوب و الخطایا؟ قال: بلی یا رسول اللہ! قال: قل: اللھم(آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار) قال: ذنبی اعظم یا رسول اللہ! فقال رسول اللہﷺ (بل کلام اللہ اعظم)۔

ثم امرہ رسول اللہﷺ بالانصراف الی منزلہ، مفرض ثمانیۃ ایام، فجاء سلمان رضی اللہ عنہ الی رسول اللہﷺ، فقال: یا رسول اللہ! ھل لک فی ثعلبۃ ناتہ لما بہ، فقال رسول اللہﷺ: لم ازلت راسک عن حجری؟ قال: انہ من الذنوب ملآن، قال: ما تجد؟ قال: اجد مثل دبیب النمل بین جلدی و عظمی، قال فما تشتھی؟ قال: مغفرۃ  ربی

قال: فتنزل جبریل علیہ السلام علی رسول اللہﷺ، فقال: ان ربک یقراْ علیک السلام و یقول: لو ان عبدی ھذا لقینی بقراب الارض خطیئۃً لقیتہ بقرابھا مغفرۃً، فقال لہ رسول اللہﷺ، ا فلا اعلمہ ذلک قال: بلی فاعلمہ رسول اللہﷺ بذلک، فصاح صیحۃ، فمات

فامر رسول اللہﷺ بغسل و کفنہ و صلی علیہ فجعل رسول اللہﷺ یمشی علی اطراف اناملہ فقالوا: یا رسول اللہ! رایناک تمشی علی اطراف اناملک؟ قال: و الذی بعثنی بالحق نبیا ما قدرت ان اضع رجلی علی الارض من کثرۃ اجنحۃ من نزل لتشیعۃ من الملآئکۃ ۔

اسی طرح اس واقعہ کو ابن الاثیر جزری(متوفی606ھ) رحمہ اللہ نے (اسد الغابۃ)میں ،حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی852) رحمہ اللہ نے (الاصابۃ) میں ،علامہ ابن الجوزی (متوفی597ھ) رحمہ اللہ نے (الموضوعات)میں،علامہ سیوطی(متوفی911ھ) رحمہ اللہ نے(اللآلیء المصنوعۃ)میں اور

ابو الحسن بن عراق کنانی (متوفی923ھ) رحمہ اللہ نے (الشریعۃ المرفوعۃ)میں نقل فرمایا ہے۔لیکن ان سب حضرات نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد اس کے ثبوت میں تردد کا اظہار فرمایا ہے،بلکہ بعض حضرات نے تو اسے موضوع قرار دیا ہے۔

چنانچہ علامہ ابن الاثر جزری (متوفی606ھ)رحمہ اللہ (اسدالغابۃ)میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :

1: (حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء) و الفظ لہ۔، منصور بن عمار: 9/343 رقم الترجمہ: 453، رقم الحدیث:14093، ت: مصطفی عبد القادر عطا، ط: دار الکتب و العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الرابعۃ:2010م، و(معرفۃ الصحابہ)، ثعلبۃ بن عبد الرحمن

الانصاری:1/498، رقم الترجمہ:419، رقم الحدیث:1410، ت: عادل بن یوسف العزازی، ط: دار الوطن للنشر، الطبعۃ

1998م، و (جزاء الدراج):1/105، رقم الحدیث:4، ت: عبد اللہ بن مرحول السوالمۃ، ط: دار النشر، کویت، سن = الاولی: 1419ھـ

الطباعۃ:2001م، و (ترتیب الامالی الخمیسۃ)، باب فی التوبۃ و ما یتصل بذلک:1/254، رقم الحدیث: 870، ت: محمد حسن محمد حسین اسماعیل، ط: دار الکتب العلیۃ، بیروت، الطبعۃ الاولی:1422ھـ :2001م۔

قلتُ: اخرجہ ابن مندہ و ابو نعیم، و فیہ نظرٌ غیر اسنادہ، فان قولہ تعالی: (ما ودعک ربک و ما قلی) نزلت فی اول الاسلام و الوحی، و النبی بمکۃ، و الحدیث فی ذلک صحیح، و ھذہ القصۃ کانت بعد الھجرۃ فلا یجتمعان۔

ترجمہ:    اس وا قعے کی ابن مندہ اور حافظ ابونعیم رحمہما اللہ نے تخریج کی ہے،اس کے متن میں اسنادی حیثیت سے قطع نظر ایک قوی علت پائی جا رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ اللہ کا ارشاد(ما ودعک ربک و ما قلی)زمانہ اسلام اور وحی کے ابتدائی دور میں مکہ میں نازل ہوا ہے ،جبکہ یہ قصہ ہجرت کے بعد کا ہے،لہذا یہ دونوں باتیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔

اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی:852ھ) رحمہ اللہ (الاصابۃ)میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد اس کے راوی منکدر بن محمد پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

“قلتُ: و فیہ ضعف، و شیخہ اضعف منہ، و فی السیاق ما یدل علی وھن الخبر، لان نزول (ما ودعک ربک و ما قلی) کان قبل الھجرۃ بلا خلاف۔”

ترجمہ:  (حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ منکدر بن محمد)میں ضعف پایا جارہا ہے اور ان کے شیخ ان سے بھی زیادہ ضعیف ہیں:نیز اس حدیث کے سیاق میں ایک ایسی علت موجود ہے کہ جو اس کے کمزور ہونے پر دلالت کرتی ہیں ؛اس لیے کہ آیت (ما ودعک ربک وما قلی)بلا اختلاف ہجرت سے پہلے (مکہ مکرمہ میں )نازل ہوئی ہے(جبکہ یہ واقعہ ہجرت کے بعد کا ہے)۔

1:  (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ) باب الثاء مع العین:1/243،ط:دار احیاء التراث العربی، بیروت۔

2:   لیکن ابن مندوہ کے ہاں یہ روایت ہمیں نہیں ملی ۔

3:  (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ) حرف الثاء، القسم الاول:1/200، الرقم:944، ط: دار احیاء التراث العربی، بیروت، اللطبعۃ الاولی:1327ھـ

علامہ ابن جوزی (متوفی:597ھ) رحمہ اللہ نے (الموضوعات)میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد اسے موضوع قرار دیا ہے ،چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں :

قال المضعف: ھذا حدیث موضوع شدید البرودۃ، و لقد فضح نفسہ من وضعہ بقولہ: و ذلک حین نزل قولُہ: (ما ودعک ربک)، و ھذا انما نزل بمکۃ بلا خلاف، و لیس فی الصحابۃ من اسمہ دفافۃ۔

و لقد اجتمع فی اسنادہ جماعۃ ضعفاء، منھم: المنکدر، قال یحی: لیس بشیء، و قال ابن حِبَّان: کان یاْتی بالشیء توھمًا، فبطل الاحتجاج باخبارہ۔

و منھم: سلیم بن منصور، فانھم قد تکلموا فیہ۔

و منھم: ابو بکر المفید، قال البرقانی: لیس بحجۃ۔۔۔۔۔۔و قد روی ھذا الحدیث ابو عبد الرحمن السلمی عن جدہ اسماعیل بن نجید عن ابی عبد اللہ محمد بن ابراھیم العبدی عن سلیم و ھؤلاء لا تقوم بہم حجۃ(1)۔

ترجمہ:  یہ حدیث بالکل ہی موضوع(من گھڑت) ہے اور اس کے واضع(گھڑنے والے)نے اپنے قول :”و ذلک حین نزل قولہ”:

(ما ودعک ربک)بلا    اختلاف مکہ میں نازل ہوئی ہے نیز صحابہ کرام میں دفافہ نامی کوئی صحابی نہیں تھے

نیز(اس میں ایک یہ  بھی علت ہے کہ )اس روایت کی سند میں ضعفاء کی ایک جماعت ہے: ان میں سے ایک منکدر بن محمد ہیں ،اس کے بارے میں یحی بن معین نے (لیس بشیء)اور ابن حبان نے(کان یاْتی بالشیءتوھماً)فرمایا ہے لہذا اس کی روایات سے استدلال باطل ہے۔

1: کتاب ذم المعاصی،باب توبۃ ثعلبۃ بن عبد الرحمن الانصاری:3/346،الرقم:1578،ت: نور الدین بن شکری بن علی بویا جیلار، ط: اضواء السلف، الریاض، الطبعۃ الاولی :1318ھـ

1997م۔= ط: اضواء السلف، الریاض، الطبعۃ الاولی :1318ھـ

اور ان میں سے ایک سلیم بن منصور ہیں، جن کے بارے میں علماء نے کلام کیا ہے اور ان میں سے ایک ابو بکر المفید ہیں ،برقانی نے ان کے بارے میں فرمایاہے: (لیس بحجۃ)۔

نیز اس واقعے کو ابو عبد الرحمن سلمی نے اپنے دادا اسماعیل بن نجید سے ،انھوں نے ابوعبد اللہ محمد بن ابراہیم سے اور انھوں نے سلیم سے روایت کیا ہے اور ان تینوں روات کو قابل احتجاج قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح علامی سیوطی (متوفی911ھ) رحمہ اللہ (اللآلیءالمصنوعۃ)میں اس واقعہ کو نقل کر نے کے بعدتحریر فرماتے ہیں :

(موضوع)، المنکدر لیس بشیء، و سلیم تکلموا فیہ، و ابو بکر المفید لیس بحجۃ، و لیس فی الصحابۃ من اسمہ ذفافۃ، و قولہ تعالی: (ما ودعک ربک و ما قلی) انما نزل بمکۃ بلاخلاف، رواہ ابو عبد الرحمن السلمی، عن جدہ اسماعیل بن نجید، عن ابی عبد اللہ محمد بن ابراھیم العبدی، عن سلیم، و ھؤلاء لا تقوم بہم حجۃ(1)۔

ترجمہ: (یہ روایت )موضوع ہے،منکدر( کو)(لیس بشیء)(قرار دیا گیا )ہے، سلیم کے بارے میں محدثین نے کلام کیا ہے اور ابو بکر المفید

(کے بارےمیں)(لیس بحجۃ)(فرمایا گیا )ہے اور صحابہ کرام میں ذفافۃ نامی کوئی صحابی نہیں تھے۔

نیز اللہ کا ارشاد(ما ودعک ربک و ما قلی)بلا اختلاف مکہ مکرمہ میں نازل ہوا ہے (جبکہ یہ واقعہ مدینے کا ہے)۔

نیز اس واقعے کو ابو عبد الرحمن سلمی ے اپنے دادا اسماعیل بن نجید سے،انھوں نے ابو عبداللہ محمد بن ابراھیم سے اور انھوں نے سلیم سے روایت کیا ہے اور یہ تینوں روات قابل احتجاج نہیں ہیں ۔

1: کتاب الادب و الزھد :2/305، ط: دار المعرفۃ، بیروت۔

اسی طرح ابو الحسن بن عراق(متوفی:923ھ) رحمہ اللہ(الشریعۃ المرفوعۃ)میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:

فیہ المنکدر بن محمد بن المنکدر، لیس بشیء، و سلیم بن منصور بن عمار تکلموا فیہ، و ابو بکر المفید لیس بحجۃ، و قولہ تعالی:

(ما ودعک ربک و ما قلی) انما نزلت بمکۃ بلاخلاف

ترجمہ:  اس (روایت کی سند) میں منکدر بن محمد (ہیں ،جن کے بارے میں )(لیس بشیء)فرمایا گیا ہے اور سلیم بن منصور کے بارے  میں محدثین نے کلام کیا ہے اور ابو بکر المفید (کے بارےمیں)(لیس بحجۃ)(فرمایا گیا )ہے۔

اور اللہ کا ارشاد (ما ودعک ربک و ما قلی)بلااختلاف مکہ مکرمہ میں نازل ہوا ہے،(جبکہ یہ واقعہ مدینہ کا ہے)۔

محدثین کے درج بالاکلام کی روشنی میں تین وجوہات کی بناء پر اس واقعہ میں سخت قسم کی نکارت پائی جاتی ہے۔

اور وہ تین وجوہات یہ ہیں:

1:  یہ واقعہ دو متضاد تصریحات پر مشتمل ہے ۔

پہلی تصریح:

اس  واقعہ میں یہ تصریح آئی ہے کہ حضورﷺ نے حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کو جنگل سے واپس لانے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔

اسی طرح اس میں اس یہ بھی ہے کہ یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جس زمانہ میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان اور جماعت کی اقامت کہنے کے لیے مقرر تھے ۔

یہ دونوں باتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ یہ واقعہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں پیش آیا ہے۔

1:  کتاب الادب و الزھد:2/283، ط:دار الکتب العلمیۃ،بیروت۔

کیونکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا ہے ،چنانچہ ابن عبد البر  رحمہ اللہ نے”الاستعاب ” میں ابن الاثیر

جزری رحمہ اللہ نے “اسد الغابہ”میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے “الاصابہ”اور “تہذیب التہذیب”میں نقل فرمایا ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد سب سے پہلا معرکہ “غزوہ خندق”پیش آیا (1)۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے  “الہدایہ و النہایہ” میں نقل فرمایا ہے کہ غزوہ خندق شوال سن پانچ ہجری میں پیش آیا ہے(2)۔

اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا مستقل مؤذن مقرر ہونا بھی ہجرت کے بعد کی بات ہے ،چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ اذان کی ابتداء مدینہ منورہ میں ہوئی اور سب سے پہلے حضورﷺنے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہصحیح بخاری کی شرح میں اذان کی مشروعیت سے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

(و حدیث ابن عمر المذکور فی ھذا الباب ظاھر فی ان الاذان شرع بعد الھجرۃ، فانہ نفی النداء بالصلاۃ قبل ذلک مطلقاً)(3)۔

دوسری تصریح

اس واقعہ کے سیاق میں اس کے تاریخی تعین کی صراحت اس طرح آئی ہے:(و ھی الایام التی قالوا:و دعہ ربہ و قلاہ)

1: (اسد الغابۃ)، باب السین و اللام:2/510، الرقم:2150، ت: علی محمد معوض، و عادل احمد عبد الموجود، ط :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، و “الاستعاب” بہامش “الاصابۃ”، باب السین، ص:58، و “الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ”، القسم الاول، باب السین:2/113، الرقم:335، ت: ، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، سن الطبعیۃ:1853م، و “تہذیب التھذیب”، باب السین:2/113، الرقم:3350، ت: ، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،

سن الطبعۃ:1853م،و “تھذیب التھذیب”، باب السین:4/138،ط:دار احیاء التراث العربی، الطبعۃ الاولی:1325ھـ

2:  “البدایۃ و النھایۃ”،غزوہ الخندق او الاحزاب:4/2/93،ط:المعارف ،بیروت،

3:  (فتح الباری) مع (صحیح البخاری) کتاب الاذان، باب بدء الاذان:2/103، رقم الحدیث:604،ط:دار السلام، الریاض۔

یعنی  یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جن دنوں کفار آپﷺ کے بارے میں یہ کہہ رہے تھے کہ اس کے رب نے اسے چھوڑ دیا ہے اور اس پر ناراض ہو گیا ہے۔

اس بات پر تمام علماء تفسیر کا اتفاق ہے کہ کفار کے آپﷺ کو (و دع ربہ قلاہ)کہنے اور اس پر آیت (ما ودعک ربک و ما قلی)کے نزول کا واقعہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا ہے ۔

چنانچہ اس حوالےسے ابن الاثیر ،حافظ ابن حجر،علامہ ابن الجوزی ،علامہ سیوطی اور ابن عراق رحمہم اللہ کی مذکورہ بالا تصریحات کے علاوہ تفسیر طبری ،مستدرک حاکم اور دیگر کئی کتب تفسیر و حدیث میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ سورۃ الضحی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی(1)۔

ان دو متضاد تصریحات کی وجہ سے اس واقعہ کا پایہ ثبوت کو پہنچنا ایک مشکل امر ہے۔

2:  اس واقعہ میں ذفافہ نامی شخص غیر معروف ہے۔

اس واقعہ میں ذفافہ نامی شخص کا ذکر آیا ہے ،احادیث و آثار اور صحابہ کرام کے تراجم پر لکھی جانے والی کتابوں میں اس واقعہ کے علاوہ کسی بھی جگہ اس کا نام نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس کے صحابی ہونے پر کوئی مضبوط دلیل موجود ہے۔

جس کسی نے بھی صحابہ کرام کے تراجم میں اس نام کے صحابی کا ذکر کیا ہے ، اس نے اسی واقعہ ہی کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور اکثر حضرات نے تو اس نام کے صحابی کے بارے میں تردد کا اظہار فرمایا ہے ،جیسا کہ اس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔

1:”جامع البیان عن تاویل آی القرآن”تفسیر سورۃ الضحی:24/487،ت:عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی،ط:دار ھجر،القاھرۃ:الطبعۃ الاولی:1422ھ:2001

و “اسباب النزول” للواحدی، سورۃ الضحی:723، ت: ماھر یاسن الفحل، ط: دار الایمان، الطبعۃ الاولی:1426ھـ :2005م،و “الدر المنثور فی التفسیر الماثور”، تفسیر الضحی:15/481، ت: عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی، ط: الطبعۃ الاولی:1424ھـ :2003م، و “المستدرک” للحاکم، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الضحی:2/574، الرقم:3945، ت: مصطفی عبد القادر عطا، ط: دار الکتاب العلمیۃ، بیروت الطبعۃ الثانیۃ:1422ھــ :2002م۔

2:   ابن حاتم رازیؒ نے “الجرح و التعدیل” میں ابو جعفر عقیلی ؒ نے کتاب : الضعفاء”میں حافظ جمال الدین مزیؒ نے “تہذیب الکمال”میں حافظ ابن حجر عسقلانی مے “تہذیب التہذیب” اور “لسان المیزان “میں حافظ ذہبیؒ نے “میزان الاعتدال”،”دیوان الضعفاء” اور “المغنی”میں اور ان کے علاوہ دیگر ائمہ جرح و تعدیل ان رواۃ کے ضعیف اور سخت متکلم فیہ ہونے کو نقل فرمایا ہے۔

لہذا اس واقعہ کے ثبوت کا اعتقاد رکھنا اور اس کو بیان کرنا درست نہیں ہے۔

و اللہ تعالی اعلم بالصواب

      عمیر سلطان / عبد المجید          

المتخصص فی الافتاء و علوم الحدیث                                                              

  جامعۃ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ                                                                                 

19/2/1438ھ                                                                               

8/11/2017م                                                                               

الجواب صحیح

محمد صدیق

21/2/1439ھ

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پررکلک کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں