ہاؤس فنانسنگ کے جائز طریقے

سوال : ہم لون لینا چاہ رہے تھے تو کیا یہ حلال strategy ہے یا نہیں ہماری بات اسلامک بینک میں ہوئی ہے تو انہوں نے بتایا کہ گھر کی تعمیر(construction) ہم خود کرا کر دیں گے اور جو بھی اس پر خرچ آئےگا ہم اس کی رنٹل بیس نکالیں گے اور اس کا رنٹ طے کریں گے، اس پر ہم کچھ Extra چارج لیں گے، اور یہ سب رنٹل فارم میں ہوگا
تو اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ جائز طریقہ ہے یا نہیں؟
تنقیح : بینک کا نام کیا ہے؟
جوابِ تنقیح : اسلامی بینک ہے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

مذکورہ بینک اپنے شریعہ بورڈ میں موجود علماء کرام کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے، لہذا جب تک یہ بینک اپنے علماء کرام کی زیر نگرانی کام کر رہا ہو اور آپ کو بھی ان علماء کے علم اور دیانت پر اعتماد ہو تو اس وقت تک آپ کے لیے اس بینک سے مذکورہ معاملہ کرنے کی اجازت ہے۔

حوالہ جات :
1 : البيع مع تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح ۰
(مجلة الأحكام العدليه ،في بيان حق تصرف البائع با لثمن والمشتري بالمبيع بعد العقد وقبل القبض ,الكتاب الأول، الباب الثالث ، الفصل الثاني ، مادة 245 ص 50)

2 : لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.”
(بحر الرائق كتاب الحدود فصل فى التعزير : 5/68)

3: “(وصح بثمن حال) وهو الأصل،( ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع”.
(رد المحتار كتاب البيوع’ مطلب في الفرق بين الأثمان والمبيعات: 7/52)

4 : سرمایہ کار (کمپنی) مکان خرید کر اس کی مالک بن جاۓ پھر گاہک کو نفع کے ساتھ ادھار فروخت کردے اور پھر کمپنی گاہک سے عقد میں طے شدہ قسطوں کے مطابق قیمت وصول کرے اور اس میں نفع کا تناسب کی تعیین کا اختیار سرمایہ کار (کمپنی) کو ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس ادھار بیع کا معاملہ مرابحہ کے طریقے پر کیا جاۓ اور عقد کے اندر اس کی صراحت کردی جاۓ کہ کمپنی اس مکان پر آنے والے واقعی اخراجات سے اس قدر زائد نفع گاہک سے وصول کرے گی-

( فقہی مقالات ، ہاؤس فنانسنگ کے جائز طریقے: 2/221)

5: سوال ایک آدمی بینک کے ذریعہ مکان خریدتا ہے اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ بینک سے سودی قرضے لیکر مکان خرید لے دوسری یہ کہ بینک مکان 5 لاکھ میں خرید کر ضرورت مند کو 6 لاکھ مؤجل میں فروخت کر دے دونوں میں سے کون سی صورت اختیار کی جائے؟
جواب:دوسری صورت اختیار کر لے کیوں کہ یہ مرابحہ کی ہے اور یہ جائز ہے بشرطیکہ عقد میں بیان ہو جائے کہ ہر قسط میں اتنی رقم مزید دینی ہوگی-
(فتاوی دار العلوم زکریا : 5/271 )
6: قسطوں پر گاڑیوں کی خرید و فروخت سود کے زمرے میں تو نہیں آتی –

جواب :اگر بیچنے والا گاڑی کے کاغذات مکمل طور پر خریدار کو دے دے تو جائز ہے اور ادھار بیچنے کی وجہ سے گاڑی کی اصل قیمت پر زیادتی کرنا بھی جائز ہے-
(آپ کے مسائل اور انکے حل: 8/ 174)

7: نقد کی صورت میں قیمت میں کمی اور ادھار کی صورت میں قمیت میں زیادتی جائز ہے – (كفاية المفتى 8/54)

واللہ اعلم بالصواب

18 صفر 1444
14 ستمبر 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں