حجاج کرام اور قربانی کرنے والوں کے لیے بال,ناخن کاٹنے کی ممانعت

فتویٰ نمبر:969

سوال: محترم جناب مفتیان کرام

مجھے یہ پوچھنا تھا کہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت صرف حجاج کرام کے لیے ہے یا عام لوگ جو قربانی کرتے ہیں ان کے لیے بھی یے…

والسلام

سائل کا نام: بنت عبداللہ

الجواب حامدۃو مصلية

قربانی كرنے والوں کیلئے مستحب یہ ہے کہ وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے ناخن یا بال نہ تراشیں، بشرطیکہ ان کو تراشے ہوئےچالیس دن نہ ہوئے ہوں، اور اگر چالیس دن ہوگئے تو پھر ان چیزوں کی صفائی ضروری ہے۔اسی طرح اگر مذکورہ چیزوں کی صفائی کو ابھی چالیس دن نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد کسی نے ناخن اور بال وغیرہ کاٹ لئےتو اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ قربانی پر کوئی اثر پڑے گا، کیونکہ مذکورہ حکم کی حیثیت صرف استحباب(کرنے پرثواب اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں)کی حد تک ہے۔

اس عمل کی وجہ یہ ہے کہ حجاجِ بیت اللہ کے ساتھ مشابہت اختیار ہوجائے ، کیونکہ وہ بھی بحالتِ احرام یہ کام نہیں کرتے ۔

نیزقربانی نہ کرنے والوں کیلئے یہ عمل مستحب تو نہیں ہیں لیکن اگر وہ بھی بال اور ناخن کاٹنے میں قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں تواللہ کی رحمت سے امید ہےکہ وہ ثواب سے محروم نہ ہوں گے۔

(احسن الفتاوی: ۴۹۷/۷)

(ردالمحتار: ۱۸۱ / ۲)

“عن أم سلمۃ قالت: قال رسول اللہ ﷺ: إذا دخلت العشر و أراد أحدکم أن یضحی فلایمس من شعرہ و بشرہ شیئا وفی روایۃ: فلایأخذن شعرا ولا یقلمن ظفرا۔”

(صحیح مسلم، باب نہی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ وہو مرید التضحیۃ , النسخۃ الہندیۃ ; ۲/۱۶۰، بیت الأفکار رقم: ۱۹۷۷)

“أقول: نہی النبی ﷺ من أراد التضحیۃ عن قلم الأظفار و قص الشعر فی العشر الأول، والنہی محمول عندنا علی خلاف الأولیٰ۔”

(إعلاء السنن، باب ما یندب للمضحی فی عشر ذی الحجۃ، کراچی ۱۷/۲۶۸، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۷/۲۹۱، تحت رقم الحدیث ۵۶۰۱)

(وَأَرَادَ) أَيْ: قَصَدَ. (بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ) : سَوَاءً وَجَبَ عَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ، أَوْ أَرَادَ التَّضْحِيَةَ عَلَى الْجِهَةِ التَّطَوُّعِيَّةِ، فَلَا دَلَالَةَ فِيهِ عَلَى الْفَرْضِيَّةِ، وَلَا عَلَى السُّنِّيَّةِ. وَفِي شَرْحِ السُّنَّةِ: فِي الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْأُضْحِيَّةَ غَيْرُ وَاجِبَةٍ ; لِأَنَّهُ فَوَّضَ إِلَى إِرَادَتِهِ حَيْثُ قَالَ: وَأَرَادَ) ، وَلَوْ كَانَتْ وَاجِبَةً لَمْ يُفَوِّضِ اهـ. وَتَبِعَهُ ابْنُ حَجَرٍ….الخ

وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَسْأَلَةَ خِلَافِيَّةٌ، فَالْمُسْتَحَبُّ لِمَنْ قَصَدَ أَنْ يُضَحِّيَ عِنْدَ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ أَنْ لَا يَحْلِقَ شَعْرَهُ، وَلَا يُقَلِّمَ ظُفْرَهُ حَتَّى يُضَحِّيَ، فَإِنْ فَعَلَ كَانَ مَكْرُوهًا. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: هُوَ مُبَاحٌ، وَلَا يُكْرَهُ، وَلَا يُسْتَحَبُّ. وَقَالَ أَحْمَدُ: بِتَحْرِيمِهِ كَذَا فِي رَحْمَةِ الْأُمَّةِ فِي اخْتِلَافِ الْأَئِمَّةِ. وَظَاهِرُ كَلَامِ شُرَّاحِ الْحَدِيثِ مِنَ الْحَنَفِيَّةِ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ

(العرف الشذي للكشميری: 3/ 200)

ومسألة حديث الباب مستحبة والغرض التشاكل بالحجاج ، وأما حديث عائشة فلا يعارض ما ذكرت لأنه بعث الهدي في غير ذي الحجة وما ذكر ما في ذي الحجة .

و اللہ سبحانہ اعلم

✍بقلم : بنت یعقوب 

قمری تاریخ: ۲ ذوالحج ۱۴۳۹

عیسوی تاریخ: ۱۴ اگست ۲۰۱۸

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں