حکم بیع العقار

فتویٰ نمبر:05

 سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام  آج کل زمین ومکان کی خریدوفروخت میں کچھ  چیزیں عام طور پر رائج  ہیں۔

!) خریدار بیچنے والے کو کچھ پیسے  بیعانہ طور پر  دے کرسودا  پکا کر لیتا ہے (کیا یہ بیع ” بیع العربون ” ہے )  اور مدت متعینہ  پر باقی  قیمت ادا  کرنے کا  وعدہ  کرتاہے اسی دوران  وہ اسی  مکان  وزمین کونفع لے کر کسی  اور کو فروخت کردیتا ہے  تو کیا  اس طرح  پوری  قیمت ادا کرنے سے  پہلے  خریدار کا اس چیز کو  نفع  لے کر  بیچنا جائز ہے حالانکہ اس دوران  اگر کوئی  اس زمین ومکان پر غاصبانہ  قبضہ  کر لے  یا حکومت  کی طرف  سے کوئی پریشانی  لاحق ہوجائے  تو اس کا ضمان  بیچنے والے کو پہنچتا ہے  تو کیا خریدار کے لیے غیر مضمون  چیز کا نفع  لینا جائز  ہے ؟

2) بسااوقات کوئی فلیٹ یا شاپنگ  سینٹر میں فلیٹ یا دکان  بک کراتے ہیں  اوررقم  قسط  وار دینا طے ہوتی ہے اسی دوران  کہ ابھی  تعمیر جاری  ہے قیمتوں کے  بڑھ جانے  پر وہ اسے نفع لے کر کسی  اور کو یا خود بنانے والے کو  بیچ دیتے ہیں  تو کیا اس طریقے  سے بیچنا  جائز ہے ؟

3) ابن الہمام  نے اپنی  شرح فتح القدیر  میں ”  باب بیع العقار ” میں لکھا ہے کہ جہاں  کہیں  مبیع کے ہلاک  ہونے کا اندیشہ  ہو وہاں قبجہ  شرط ہے  تو کیا ہمارے زمانے میں  پیش آنے والے  واقعات جیسا کہ قبضہ ، مقدمات اور حکومت کی طرف سے زمین پر دخل اندازی  کرلینا  وغیرہ  ہلاکت  معنوی  کے حکم  میں آکر بیع  قبل القبض کے معنی نہیں بنیں گے ؟

  الجواب حامداومصلیا

  • اس سوال میں چند باتیں  وضاحت طلب ہیں :

(الف) عقد کے وقت  معاملہ کس طرح کیا جاتا ہے  ؟ باقاعدہ  خرید وفروخت کا معاملہ   (sale agreement )   کرلیا جاتا ہے یامحض کا وعدہ (agreement to sell ) کیاجاتا ہے  اور قسطوں  کی مکمل ادائیگی  کے بعد از سر نو بیع کا معاملہ کیاجاتا ہے  ؟

 ( ب)  اگر باقاعدہ خرید وفروخت  کا معاملہ کیا جاتاہے  توخرید وفروخت  کا معاملہ کرنے کے بعد  بیچنے  والا،پلاٹ یا مکان کا قبضہ  خریدار کو دے دیتا  ہے یاقسطوں  کی مکمل  ادائیگی  تک بیچنے  والا پلاٹ  یا مکان  اپنے قبضہ اورتصرف میں رکھتا ہے؟ جو بھی صورت ہو اسے وضاحت کے ساتھ لکھ  کر بھیج دیں  اس کے بعد ان شاء اللہ تعالیٰ  جواب  دے دیاجائے گا۔

(2) اگر فلیٹ  یا دکان  کی تعمیر مکمل نہ ہوئی یا تعمیر مکمل ہوچکی  ہو لیکن بنانے والے  ( صانع) کی طرف سے بنوانے  والے (مستصنع ) کو  فلیٹ یادکان  کا قبضہ نہ دیاگیا ہو تودونوں صورتیں میں فلیٹ یادکان ، بنوانے  والے کی ملکیت  میں نہیں آئی  اور اس کے لیے آگے بیچنا بھی شرعاً درست نہیں  ہے ۔

 تاہم اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے  کہ  بنوانے والا آگے کسی شخص سے فلیٹ یا دکان تعمیر  ہوجانے  کے بعد بنوانے والے کے قبضہ  میں آئے  گی تو وہ اسے آگے فلاں شخص کو بیچے گا اور رقم  باہمی رضامندی  سے  چاہے تو ابھی   لے لے ۔ اس صورت میں یہ رقم  ثمن ( قیمت ) نہیں ہوگی  بلکہ بنوانے والے  پر قرض  ہوگی  وہ اس کواپنے استعمال میں  لاسکتا ہے پھر جب بنوانے  ولا فلیٹ یا دکان پر قبضہ  کر کے  آگے بیچے  گا تو اسی لیے گئے قرض  سے ثمن  منہا کرلیاجائے ۔ ( ماخذہ تبویب  : 1/1357

 لما  فی  المحیط البرھانی :    ثم کیف نیعقد ۔۔۔والسلم  ( 7/135، دارالکتب  العلمیہ )

 وفی  بدائع الصنائع :امام حکم ۔۔۔۔غیر لازم  ( 5/3 دارالکتب العلمیۃ )

وفی  بدائع الصنائع :

( واما ) کیفیۃ جوازہ ۔۔۔۔۔ان یرجع ایضا ( 5/210 دارالکتب العلمیۃ )

وفی بدائع الصنائع :

 ( ومنھا ) وھو شرط  ۔۔۔خاصۃ ( 5/146 دارالکتب العلمیۃ )

 (3) زمین کی  ہلاکت کی جو صورتیں  حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی  ہیں وہ یہ ہیں کہ مثلا ً زمین کسی سمندر یا دریا کہ کنارے  پر واقع ہواور پانی کی موجوں  کے ٹکرانے کی وجہ سے  اس زمین کے سمندر برد ہونے کا اندیشہ  ہو یا زمین کسی اونچی جگہ  پر ہو اور اس کے گرنے کا خطرہ  ہو یا زمین کسی ایسی  جگہ ہو کہ جہاں ریت میں دب جانے کا احتمال ہو سوال میں ذکر کردہ  صورتیں  زمین کی ہلاکت  میں داخل  نہیں اس لیے یہ صورتیں  علامہ ابن  ہمام  ؒ کی مذکورشرط میں داخل  نہیں تاہم ” بیع ” کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس  چیز  کو  بیچا جارہاہے  وہ ” مقدور التسلیم ” ہو یعنی  مالک عدالتی  کاروائی  کے بغیر اس چیز کو خریدار کے حوالے  کرنے پر قادر ہو اور خریدار کو عدالتی  کاروائی  کے بغیر اس چیز کا  قبضہ حاصل ہوجائے سوال میں ذکر کردہ صورتوں میں اگر ” مبیع ” مقدور التسلیم  نہ ہو تواس کی بیع ” غیر  مقدور التسلیم ” ہونے کی وجہ شرعاً درست نہیں ہوگی ۔ ( ماخذہ  امدادالفتاویٰ : 3/34 )

  لمافی   فتح القدیر : 6/513

وفی در الحکام شرح  مجلۃ الاحکام : (1/201 )

وفی البحر الرائق  : (6/126 )

وفی بدائع الصنائع ( 5/147 دارالکتب العلمیۃ )

 وفی الدر المختار  : (5/69 )

وفی رد المختار  : (5/70)

 واللہ سبحانہ اعلم

سوال: کیا  فرماتے ہیں علماء کرام  مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل  زمین ومکان کی خرید وفروخت  میں کچھ چیزیں  عام طورپررائج  ہیں۔

  • خریدار بیچنے والے کو کچھ پیسے بیعانہ طور پر دے کرسودا پکا  کرلیتاہے  ( کیا یہ  بیع ” بیع العربون ” ہے ) اور مدت متعینہ پر باقی قیمت ادا کرنے کا  وعدہ کرتاہے اسی دوران وہ اسی مکان وزمین کو  نفع لے کر کسی اوار کوفروخت کردیتا ہے تو کیا اس طرح پوری قیمت ادا کرنے سے پہلے خریدار  کا اس چیز کو نفع  لے کر بیچنا جائز ہے  حالانکہ اس دوران اگر کوئی اس زمین  ومکان پر غاصبانہ قبضہ کر لےیا کوئی حکومت  کی  طرف سے کوئی پریشانی لاحق ہوجائے تواس کا  ضمان بیچنے  ولاے کو پہنچتا ہے  تو کیا خریدار  کے لیے غیر مضمون  چیز کا  نفع لینا جائز ہے؟

 طلب شدہ وضاحتیں :

 ( الف ) بسااوقات  عقد  کے وقت جو ایگری منٹ کیاجاتا ہے وہ (aggrement to sell )  ہوتا  ہے یعنی بیعانہ قرار ہوتاہے  جس  میں مدت متعینہ  پر قیمت مکمل  کی ادائیگی  کے بعد بیچنے کا وعدہ کیاجاتا ہے  اسے  ( بانا خط قرار) بھی کہتے ہیں اور مکمل  ویمت کی ادائیگی  کے بعد جو ایگریمینٹ کیاجاتا ہے وہ sell aggrement  ہوتا ہے ۔

 ( ب)  بسا اوقات  عقد  کے وقت کوئی تحریری  قراردات   تو نہیں کی جاتی  صرف زبانی طور پر لین دین کی  بات طے ہوجاتی ہے اور بیعانہ  کے چور پر کچھ رقم دے دی جاتی ہے اور قیمت کی مکمل ادائیگی  تک وہ زمین یاپلاٹ بیچنے  والے کی ہی ملک میں باقی رہتا ہے۔

(ج) بسااوقات  خریدارزمین  کے مالک سے زمین کی قیمت طے کرنے  کے بعد  بیعانہ  کی رقم ادا کردیتا ہے اور بقیہ رقم کے لیے ایک مدت متعین کرلیتا ہے  اوربائع سے زمین  کا قبضہ  حاصل کر کے اس کومختلف شکلوں  میں زیادہ  نفع  لے کر  بیچ دیتا ہے  جسے عرف  میں (Developer )   کہتے ہیں ۔

(د)  بائع کی زبانی  اجازت سے زیادہ  نفع لے کر بیچنے  کا حق مشتری  کو حاصل ہے یا نہیں ؟ حالانکہ اس زمین پر بائع کا ہی قبضہ  ہے ۔

 (ر ) بسا اوقات  زبانی طور پر اس باقاعدہ  خرید وفروخت کا معاملہ طے کیاجاتا ہے اور قیمت کی مکمل ادائیگی  تک زمین یا پلاٹ بائع  کے قبضہ  ہی میں رہتی ہے ۔

(2) بسااوقات  کوئی فلیٹ یا شاپنگ  سینٹر میں فلیٹ یا دوکان   بک کراتے  ہیں اور رقم  قسط  واردینا  طے ہوتی ہے اسی دوران  کہ ابھی تعمیر جاری ہے قیمتوں کے بڑھ جانے پر وہ اسے نفع لے کر کسی اور کو یا خود بنانے والے  کو بیچ دیتے ہیں تو کیا اس طریقے  سے بیچنا جائز ہے ؟

 (3) ابن الھمام  نے اپنی شرح فتح القدیر میں “باب بیع العقار ” میں لکھا ہے  کہ جہاں کہیں مبیع کے ہلاک  ہونے کا اندیشہ  ہو وہاں قبضہ  شرط ہے  تو کیا ہمارے زمانے  میں پیش آنے والے  واقعات  جیساکہ  غاصبانہ  قبضہ ، مقدمات  اور حکومت  کی طرف سے  زمین پر دخل اندازی  کرلینا  وغیرہ ہلاکت  معنوی  کے حکم میں آکر بیع  قبل القبض کے معنی نہیں بنیں گے ؟

الجواب حامدوامصلیا

 واضح  رہے  کہ خرید وفروخت  کے معاملہ میں شرعاً درست ہونے کے لیے ضروری  ہے کہ بیچنے والا جو چیز  بیچ رہاہے وہ اس کی  ” ملکیت ”  میں ہواوروہ اسے بغیر کسی عدالتی کاروائی  کے  خریدار کو حوالے  کرنے پر بھی قادر ہو۔ اگر بیچنے والا  ” مبیع ” ( بیچی جانے  والی چیز  ) کا مالک  نہ ہو یا مالک  تو ہو  لیکن اسے  خریدار کے حوالہ  کرنے پر قادرس نہ  ہو تو پہلی صورت میں ” مبیع غیر مملوک ” اوردوسری صورت میں  ” مبیع غیر مقدورالتسلیم ” ہونے کی وجہ سے  خرید وفروخت  کا معاملہ درست نہ ہوگا ( کما فی العبارۃ :1) اس تمہید  کے بعدسوال میں ذکر کردہ صورتوں سے  متعلق عرض یہ ہے کہ :

 ( الف ، ب ) ا ن دونوں صورتوں میں  چونکہ  باقاعدہ  خریدوفروخت کا معاملہ  ( sale Deed )  نہیں کیاجاتا  بلکہ محض  بیچنے کا وعدہ  (Agreement to sell ) کیا جاتا ہے اس لیے ان  صورتوں  میں زمین یا پلاٹ خریدار کی ملکیت میں ہی نہیں آتی  اس لیے ان صورتوں  میں  خریدار  کے لیے زمین  یا پلاٹ کا مالک  ہونے سے پہلے اسے آگے بیچنا بھی شرعاً درست نہیں ۔

 ( ج ،د )  بیعانہ  کی رقم  وعدہ بیع     (Agreement to sell )کے بعد دی جاتی ہے اورباقاعدہ  خریدوفروخت کا معاملہ  (Sale Deed ) اس وقت  ہوتا ہے جب خریدار مکمل قیمت کی ادائیگی  کردیتا ہے  اوروعدہ بیع  (Agreement to sell ) کے  بعد خریدار کا بائع کی اجازت  سےآگے بیچنے کا  مطلب  یہ ہے کہ خریدار کو اس زمین  کی خریدار کا جو حق حاصل ہے وہ یہ حق آگے کسی اور کو بیچ دیتا ہے  لہذا مذکورہ دونوں صورتوں میں  چونکہ باقاعدہ  بیع  ( sale Deed )    نہیں ہوتی  اور زمین کی خریدار کی ملکیت میں نہیں اتی  اس لیے مذکورہ  دونوں صورتوں میں خریدار کے لیے زمین کا مالک ہونے سے پہلے  اسے آگے بیچنا   شرعا درست نہیں  البتہ اگر باقاعدہ  خرید وفروخت کا معاملہ ( sale Deed )   ہوجائے  اور خریدار کو زمین یا پلاٹ  آگے بیچنے میں ، بیچنے والے کی طرف سے  کوئی رکاوٹ نہ ہو اور خریدار زمین یا پلاٹ  کو آگے  حوالہ کرنے  پر بھی  قادر ہو تو اس صورت میں خریدار کے لیے زمین  یا پلاٹ  آگے بیچنا شرعاً  درست ہے ۔

 ( ر) اگر باقاعدہ ایجاب وقبول  کا معاملہ ہوجائے  یعنی بائع یہ ہے کہ ” میں نے بیچ دیا” اور خیدار کہے کہ  ” میں نے خرید لیا ” بعد بائع زمین یا پلاٹ کو قیمت کی مکمل ادائیگی   تک  اپنے قبضہ میں رکھے  تو مذکورہ معاملہ  شرعاً درست ہے تاہم  اس  صورت میں جب تک خریدار قیمت کی مکمل ادائیگی  کر کے زمین یا پلاٹ بائع کے قبضہ  سے چھڑا نہ لے اس وقت تک خریدارکا زمین یا پلاٹ  کو آگے بیچنا  شرعاً درست  نہیں بلکہ اگر بائع کے قبضہ سے چھڑانے  سے پہلے  خریداروہ زمین  یا پلاٹاگے بیچ  دے تو وہ بائع ( یعنی جس کے قبضہ  میں زمین یا پلاٹ   ہے ) کی اجازت پر موقوف  ہوگا اگر ا س نے اجازت  دے دی  تو خریدار کی بیع نافذ ہوجائے گی ورنہ  نہیں ۔ ( کما فی العبارۃ : 2)

  • بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع  (5/146 )

وفیہ ایضا ( 5/147 دارالکتب العلمیۃ )

وفی الدر المختار  : (5/69، سعید )

وفی  رد المختار : ( 5/70 )

فی المبسوط للسرخسی ( 21/198 )

فی المبسوط للسرخسی 13/11)

 الجواب الصحیح  بندہ محمد  تقی عثمانی صاحب 

دارالارفتاء جامعہ دارالعلوم  کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں