حرمت مصاہرت کا مسئلہ

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۳۳﴾

سوال:– اگر کوئی لڑکا اپنی ماں کو غلط نظروں سے دیکھتا ہے یا ہاتھ لگاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے اور کوئی سسر اپنی بہو کو غلط نظروں سے دیکھتا ہے یا ہاتھ لگاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب :-       لڑکے کا اپنی ماں کو غلط نظروں سے دیکھنا یا چھونا ،اسی طرح سسر کا اپنی بہو کو غلط نظروں سے دیکھنا یا چھونا انتہائی گھٹیا حرکت اور انسانیت سے گرا ہوا  عمل ہے  جو سراسر  ناجائز ، حرام اور سخت گناہ ہے۔اس سے بچنا لازم ہے۔نیز اگر شہوت کے ساتھ چھوا ہو تو درج ذیل شرائط کے ساتھ حرمت مصاہرت  بھی  ثابت ہو جائے  گی:

  1. لڑکی بالغہ یا کم ازکم مشتہاۃیعنی نو سال یا اس سے زیادہ کی ہو ۔
  2. مس بغیرحائل کے ہو ، یعنی درمیان میں اتنا موٹا کپڑا حائل نہ ہو کہ جس سے جسم کی حرارت محسوس نہ ہو ،ایسے کپڑے کے ساتھ پکڑنے اورہاتھ لگانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں! اگر کپڑے اتنے باریک ہوں کہ حرارت محسوس ہوتو حرمت ثابت ہوگی۔
  3. شہوت کے ساتھ مس کیا ہو۔

امداد الاحکام میں ہے:

”اور شرطِ حرمت شہوت عند المس و التقبیل ہے۔ نہ شھوت سابقہ نہ لاحقہ“ (امدادالاحکام:ج۲ص۸۱۱)

  1. جس کو شہوت سے مس کیا ہو اسی کے ساتھ جماع کی خواہش بھی ہو ، لہذا اگر خواہش ہی نہ ہو یا اس کے ساتھ نہ ہو جس کو مس کیا ہے بلکہ کسی اور کے ساتھ ہو تو ان صورتوں میں حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
  2. حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لیے فاعل کا اقرار یا دو عادل گواہوں کی گواہی کا پایا جانا ضروری ہے نیز اگر بہو مثلا سسر پر شہوت کے ساتھ چھونے کا الزام لگائے تو شوہر کو اس کی سچائی کا غلبہ ظن یا تصدیق ضروری ہے۔
  3. انزال نہ ہو اگر انزال منی ہوجائے تو پھر حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

لہٰذا اگرچھوتے وقت اوپر ذکردہ سب شرائط موجود ہوں تو حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ؛ پہلی صورت میں ماں اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی اور دوسری صورت میں بہو اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی دونوں شوہروں پر لازم ہوگا کہ اپنی بیویوں کو فوراً زبانی طلاق دے کر علیحدہ کریں۔تاہم محض دیکھنے سے عام حالات میں حرمت مصاہرت ثابت  نہیں ہوتی۔

(اعلاءالسنن:ج۱۱ص۱۳۱)

عن ابراھیم :قال اذا قبّل الرجل امّ امراتِہ او لمسَھا من شھوۃ حُرِمتْ علیہ امراتُہ۔اخرجہ محمد فی الجمع ورجالہ ثقات

(البحر الرائق :ج۳ص۱۷۳)

والمراد اذا لم تکن محرما:لان المحْرم بسبیلٍ منھا الا اذا خاف علی نفسہ او علیھا الشھوۃَفحینئیذٍ لا یمسُّھا ولا یَنظرُ الیھا ولا یَخلو بھا لقولہ علیہ السلام:العَینان یَزنیان۔ ۔ ۔ ۔فکان فی کل واحد منھما زناً والزنا محَرَّمٌ بجمیع انواعہ وحرمۃُ الزنا بالمحارم اشدّ واغلظُ فیجتنبُ الکلَّ۔

(الفتاوی الھندیۃج۱ص۲۷۵)

قال ایضا:ثم المسُّ انما یُوجِبُ حرمۃَ المصاھرۃِ اذا لم یکن بینھما ثَوبٌ۔

(مجمع الانھر ج۱ص۴۸۱)

وما ذکر فی حد الشھوۃِ من انَّ الصحیحَ انْ تنتشرَ الآلۃُ او تزداد انتشارا کما فی الھدایۃ وفی الخلاصۃ وبہ یفتی فکان ہو االمذھب۔

(الدر المختار:ج۳ص۳۳)

وثبوتُ الحرمۃِ بلمسھا مشروطٌ بان یصْدُقھا ویقع فی اکبر رایھا صدقُھا۔۔۔۔الخ     ونصابھا (لغیرھا من الحقوق سواء کان)الحق (مالااو غیرہ کنکاح۔ ۔ ۔ (او رجل وامراتان)۔ ۔۔الخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقط والله تعالیٰ اعلم

 صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں