ادارے کا چھٹی کی تنخواہ نہ کاٹنے کا حکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک عورت ایک ادارہ میں کام کرتی ہے مہینے میں اس نے 5 دن کی چھٹی کی مگر ادارے نے جانتے ہوئے بھی اس کی تنخواہ نہیں کاٹی ۔کیا اس عورت کے لیے یہ سارے پیسے جائز ہیں؟
یا وہ 5 دن کے پیسے ادارے کو واپس کرے؟
تنقیح:ادارہ گورنمنٹ ہے یا پرائیوٹ
جوابِ تنقیح:پرائیوٹ ادارہ ہے
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے ادارے میں کام کرنے والے ملازم کی حیثیت اجیر خاص کی ہوتی ہے اور اجیر خاص ادارے کے مالک کے بنائے گئے اصول و شرائط کے مطابق کام کرنے کا پابند ہوتا ہے بشرطیکہ عہد غیر شرعی نہ ہوں۔
لہذا مذکور صورت کے مطابق اگر ادارے کے ما لک نے چھٹی کی تنخواہ کاٹنے کا اصول لاگو نہیں کیا ہوا،یا اصول تو لاگو ہے لیکن بطور تبرع اور احسان تنخواہ نہیں کاٹی تو چونکہ وہ ادارے کا مالک ہے اس لیے اسے کٹوتی نہ کرنے کا بھی اختیار ہے ، اس صورت میں خاتون کے لیے ان 5 دنوں کے پیسوں کا استعمال جائز ہے ۔البتہ اگر مذکورہ عورت نے غلط بیانی کی ہو یا ادارے کے مالک سے بھول چوک ہوئی ہو تو پھر رقم واپس کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔”وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحاً حرم حلالاً أو أحل حراماً، والمسلمون على شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً» . رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود وانتهت روايته عند قوله: «شروطهم»”.(مشکوۃ المصابیح:1/253 ، باب الافلاس والانظار، الفصل الثانی، ط: قدیمی)

2۔(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى۔۔۔الخ(الدر المختار: کتاب الاجارۃ ،باب ضمان الاجیر،6/ 72،ط:سعید)

3۔ اگر مدرسہ کا کوئی آئین ہے یا ملازمت کے وقت کوئی شرط ٹھہری ہے، یعنی کوئی اصول طے کیے ہیں تو اس کے مطابق عمل ہوگا اور اگر کوئی دستور نہیں تو استحقاق رخصت کے علاوہ ایام ِغیرحاضری کی تنخواہ دینا تبرع ہوگا لازم نہیں ۔ (فتاوی محمودیہ: 352)

و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:9/ربیع الاول /۱۴۴۴ھ
شمسی تاریخ:7/اکتوبر/2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں