اکراہ غیرملجی کی صورت میں بھی تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:187

الجواب حامداً و مصلیاً

1: مسؤلہ صورت میں غیر مسلم جج کا فیصلہ نافذ نہیں ہوگا (ماخذ حیلۂ ناجزہ :ص33)

فی الھندیہ ( کتاب ادب القاضی)

و لا تصح ولایۃ القاضی حتی یجتمع فی المولی شرائط الشھادۃ کذا فی الھندیۃ من الاسلام و التکلیف و الحریۃ و کونہ غیر اعمی و لا محدودا فی قذف و لا صم و لا اخرس و اما الاطرش و ھو الذی یسمع القوی من الآصوات فالاصح جواز تولیتہ کذا فی النھر الفائق – و یکون من اھل الاجتھاد و الصحیح ان اھلیۃ الاجتھاد شرط الاولیۃ کذا فی الھدایۃ۔

2: اگر دستخط کروانے میں واقعتاً جبر(مار پیٹ یا قید کردینا یا قتل کرنے کی دھمکی دینا وغیرہ )سے کام لیا جائے اور شوہر زبان سے طلاق نہ دے تو اس کراہ کی صور ت میں محض طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے طلاق واقع نہ ہوگی(ماخذ ہ تبویب :88/845)

واضح رہے کہ جیل کی معتدبہ سزا تو جبر و کراہ بن سکتی ہے البتہ ڈی رپورٹ کردینا جبر و اکراہ میں داخل نہیں کیونکہ یہ تو اپنے وطن واپس بھیجنا ہے لہذا اگر صرف ڈی رپورٹ کرنے کے ڈر سے طلاق نامہ پر دستخط کرےگا تو طلاق نامہ کے مطابق طلاق واقع ہو جائے گی۔

و فی الخانیۃ (1/482)

رجل ا کراہ  بالضرب  و الحبس علی ان یکتب طلاق امراتہ فلانۃ بنت فلان ابن فلان فکتب امراتہ فلان بن فلان طلق لا تطلق امراتہ لان الکابۃ اقیمت مقالم العبارۃ باعتبار الحاجۃ و لا حاجۃ ھھنا۔

و فی التاتار خانیۃ (3/38)

و فی الظھریۃ: رجل ا کراہ بالضرب و الحبس علی ان یکتب  طلاق امراتہ فکتب فلانۃ بنت فلانۃ امراتہ طالق و فی الحاوی: و لم یعبر بلسانہ لا تطلق

و فی الھندیۃ (کتاب الاکراہ، ج 5/35)

و یعتبر فی الاکرہ معنی فی المکرہ و معنی فی المکرہ و معنی فیما ا کرہ علیہ و معنی فیما ا کراہ بہ فالمعتبر فی المکرہ تمکنہ من ایقاع ما ھدد بہ فانہ اذا لم یکن متمکنا من ذلک فا کراھہ ھذیان و فی المکرہ المعتبر ان یصیر خائفا علی نفسہ من جھۃ المکرہ فی ایقاع ما ھدد بہ عاجلا لانہ لا یصیر ملجا محمولا لا طبعا الا بذلک و فیما ا کرہ بہ ان یکون متلفا او مزمنا او متلفا عضوا او موجبا غما بعدم الرضا۔۔۔۔۔کذا فی المبسوط۔

و فی المبسوط: (کتاب الا کراہ)

و فیما ا کرہ بہ بان یکون متلفا او مزمنا او متلفا عضوا او موجبا عما ینعدم الرضا باعتبار الخ

3:  خلع کے صحیح ہونے کے لیے چونکہ قضائے قاضی ضروری نہیں البتہ شوہرکی رضامندی ضروری ہے لہذا اگر خلع شوہر کی رضا مندی کے بغیر کی جائے تو وہ معتبر نہیں اگر چہ اس معاملے میں جج مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور اگر خلع شوہر کی رضامند ی سے کیا جائے تو وہ معتبر ہے خواہ اس معاملے میں جج مسلم ہو کیونکہ اس صورت میں اس غیر مسلم جج کی حیثیت ایک وکیل کی ہوگی اور وکیل غیر مسلم بھی بن سکتاہے(ماخذہ تبویب :981/1)

فی الھندیۃ ( کتاب الطلاق، باب الخلع)

حضرۃ السلطان لیست بشرط لجواز الخلع عند عامۃ العلماء و الصحیح قولھم ھکذا فی البدائع و فیما ایضا ( کتاب الوکالۃ، الباب السادس فی الوکالۃ بما یکون الوکیل سفیرا الخ)

اذا وکلت الذمیۃ مسلما بخلعھا من الذمی علی خمر او خنزیر جاز – و لو کان اخذ الزوجین مسلما و الوکیل کافرا جاز الخلع و یبطل الجمل کذا فی المبسوط

4: اگرزیادتی عورت کی طرف سے ہو تو اس صورت میں شوہر خلع میں عوض لے سکتا ہے لیکن مہر سے زیادہ نہ لے اگر زیادتی شوہر کی طرف سے ہو تو اس صورت میں شوہر کے لیے عوض لینا جا ئز نہیں۔

فی الھندیۃ (کتاب الطلاق، باب الایلاء)

ان کان النشور من قبل الزوج فلا یحل لہ اخذ شیء من العوض علی الخلع و ھذا حکم الدیانۃ فان اخذ جاز ذلک فی الحکم و لزم ضتی تملک استردادہ کذا فی البدائع – و ان کان النشور من قبلھا کرھنا لہ ان یاخذ

ا کثر مما اعطاھا من المھر و لکن مع ھذا یجوز اخذ الزیادۃ فی القضاء کذا فی غایۃ البیان۔ و اللہ اعلم

آصف نوید

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

26/2/1431ھ

مضمون سوال و جواب

الجواب حامداً و مصلیاً

سوال میں ذ کر کردہ تفصیل اگر واقعتاً درست ہے اور ان لوگوں نے سائل کو “کئی گھنٹے تک یرغما ل بنائے رکھا ،گاڑی کے ٹائر پنکچر کے لیے مزید نقصان پہنچایا اور یہ کہا کہ دوسری بیوی کو طلاق دے کر جاسکتے ہو بصورت دیگر تمہاری رہائی کی کوئی صورت نہیں تو یہ صورت اکراہ میں داخل ہے اگر چہ شرعاً ملجی نہیں سکتی لیکن تحریری طلاق میں اکراہ غیر ملجی کبھی مؤثر ہوتا ہے لہذا صورت مسئلہ میں مسماۃ فاطمہ بیگم دختر محمد سردار خان پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی وہ بدستور اپنے شوہر عبد الرزاق خان کے نکاح میں ہے اور ہماری رائے میں منسلکہ فتوی میں سے جامعہ اسلامیہ راولپنڈی کا فتوی درست ہے

فی الدر:9/169، مطبوعہ دار الثقافۃ دمشق

(و یقع طلاق کل زوج بالغ عاقل) و لو تقدیرا بدائع لیدخل السکران (و لو عبدا او مکرھا) فان طلا قہ صحیح لا قرارہ بالطلاق الخ

و فی حاشیۃ الطحطاوی علی الدر(2/106) مطبوعہ مکتبۃ عربیہ کوئٹہ 

یکتب طلاق امراتہ فکتب لا تطلق لان الکتابۃ اقیمت مقام العبارۃ باعتبار الحاجۃ و لا حاجۃ ھنا کذا فی الخانیۃ

فی رد المحتار تحیۃ

(قولہ لا اقراہ بالطلاق) و فی البحران المراد الاکراہ علی التلفظ بالطلاق فلو ا کرہ علی ان یکتب طلاق امراتہ فکتب لا تطلق لان الکتابۃ اقیمت مقام العبارۃ باعتبار الحاجۃ و لا حاجۃ ھنا کذا

و فی الخانیۃ علی ھاش الھندیۃ (1/472) مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ

رجل ا کرہ بالضرب فکتب امراتہ فلانۃ بنت امراتہ فلانۃ بنت فلان بن فلان طلق لا تطلق امراتہ کان الکتابۃ اقیمت مقام العبارۃ باعتبار الحاجۃ ھھنا و کذا فی الولوا لحیۃ (2/99) دار الکتب بیروت والبحر:3/429، دار الکتب العلمیۃ بیروت و المحیط البرھانی (4/482) ادارۃ القرآن کراچی و النھر

الفائق (2/316) قدیمی کتب خانہ کراچی و فتاوی دارالعلوم دیو بند (9/61) دار الاشاعت و عزیز الفتاوی(1/492) دار الاشاعت و امداد المفتین:2/523 و کفایت المفتی:6/67 و اللہ اعلم

محمد طیب کشمیری

دارالافتاء دارالعلوم کراچی

10/8/1428ھ

*****************

اپنا تبصرہ بھیجیں