اشراق کا ثواب ایک حج اور ایک عمرہ کے برابر کب ہے

اشراق کا ثواب ایک حج اور ایک عمرہ کے برابر ہےتو یہ ثواب اشراق تک مسجد میں بیٹھے رہنے پر ملے گا یا گھر آکر پڑھ لے تو کیا اس کو بھی یہی ثواب ملے گا؟

سائل:محمد انس

الجواب حامدا ومصلیا

اس بابت رسول اکرمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے ۔مفہوم:” جس نے فجر کی نماز جماعت سے ادا کی پھر بیٹھا اللہ کاذکر کرتا رہا تاآنکہ سورج طلوع ہوگیا،پھر اس نے دو رکعات ادا کیں تو اس کے لیے ایک حج اور عمرہ کے بقدر اجر ہے”۔

حدیث مبارکہ میں حج و عمرہ کے ثواب کی فضیلت بظاہر دو شرطوں پر موقوف معلوم ہوتی ہے :

نماز فجر جماعت سے پڑھے ۔نماز فجر تنہا ادا کرنے والا یہ فضیلت نہیں پائے گا۔

 سورج طلوع ہونے کے بعد اشراق کی نماز پڑھنے تک نماز کی جگہ پر ہی بیٹھا اللہ کا ذکر،تلاوت،درودشریف اوراستغفار وغیرہ کرتا رہے اگرفرض نماز پڑھ کراپنی جگہ سے اٹھ گیا یا سوگیا پھر اشراق کی نماز ادا کی تو مذکورہ فضیلت نہیں ملے گی۔

البتہ محدثین کرام نے اس حدیث کی تشریح میں یہ بات فرمائی ہے کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے کسی دینی ضرورت درپیش ہوتے ہوئےاپنی جگہ بیٹھے رہنا ضروری نہیں ۔ بلکہ اس مخصوص وقت کو اللہ کے ذکر کے ساتھ گزارنا کافی ہے لہٰذا طواف کے لیے،علمی مذاکرہ کے لیے یا وعظ و نصیحت کی مجلس میں شامل ہونے کے لیے نماز کی جگہ سے اٹھ کر مسجد میں ہی دوسری جگہ یہ کام کیے جائیں یا مسجد سے اٹھ کر اپنے گھر یا چہل قدمی کے لیے کسی جگہ جایاجائے اور اس حالت میں مسلسل ذکر میں مشغول رہے پھر اشراق کی نماز ادا کرے تب بھی اس فضیلت کو حاصل کرنے والا شمارہوگا۔

البتہ اگر اس مخصوص وقت میں اللہ کے ذکر کے بجائے کوئی اور کام کیا یا سوگیا پھر اشراق کی نماز ادا کی تو اب حج و عمرہ کی فضیلت پانے والا توشمار نہ ہوگا۔ البتہ اس صورت میں اشراق کی مستقل فضیلت کو پائے گا ۔اشراق کی نماز ادا کرنے کی حدیث مبارک میں مستقل فضیلت وارد ہوئی ہے ۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

” اے آدم کے بیٹے! تو میرے لیے دن کی ابتدا ء میں چار رکعات پڑھنے سے عاجز نہ ہو۔میں دن بھر تیرے لیے کافی ہوجاؤں گا”(دن بھر کی حاجتوں اور ضروریات میں کافی ہوجاؤں گا)۔

سنن الترمذي بشار (1/ 727)

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى الغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ.

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 770)

” «مَنْ صَلَّى الْفَجْرَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ» ) ، أَيِ: اسْتَمَرَّ فِي مَكَانِهِ وَمَسْجِدِهِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ، فَلَا يُنَافِيهِ الْقِيَامُ لِطَوَافٍ أَوْ لِطَلَبِ عِلْمٍ أَوْ مَجْلِسِ وَعْظٍ فِي الْمَسْجِدِ، بَلْ وَكَذَا لَوْ رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ وَاسْتَمَرَّ عَلَى الذِّكْرِ، ( «وَحَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ» “) : قَالَ الطِّيبِيُّ: أَيْ ثُمَّ صَلَّى بَعْدَ أَنْ تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ قَدْرَ رُمْحٍ حَتَّى يَخْرُجَ وَقْتُ الْكَرَاهَةِ، وَهَذِهِ الصَّلَاةُ تُسَمَّى صَلَاةَ الْإِشْرَاقِ وَهِيَ أَوَّلُ الضُّحَى

سنن أبي داود (2/ 27)

عَنْ نُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا ابْنَ آدَمَ، لَا تُعْجِزْنِي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ فِي أَوَّلِ نَهَارِكَ، أَكْفِكَ آخِرَهُ “۔

شرح أبي داود للعيني (5/ 187)

حمل العلماء هذه الركعات على صلاة الضحى

سنن أبي داود (2/ 27)

عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ «مَنْ قَعَدَ فِي مُصَلَّاهُ حِينَ يَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، حَتَّى يُسَبِّحَ رَكْعَتَيِ الضُّحَى، لَا يَقُولُ إِلَّا خَيْرًا، غُفِرَ لَهُ خَطَايَاهُ، وَإِنْ كَانَتْ أَكْثَرَ مِنْ زَبَدِ الْبَحْرِ»

عون المعبود وحاشية ابن القيم (4/ 117)

(من قعد) أي استمر (في مصلاه) من المسجد أو البيت مشتغلا بالذكر أو الفكر أو مفيدا للعلم أو مستفيدا وطائفا بالبيت (حين ينصرف) أي يسلم (من صلاة الصبح حتى يسبح) أي إلى أن يصلي (ركعتي الضحى) أي بعد طلوع الشمس وارتفاعها (لا يقول) أي فيما بينهما (إلا خيرا) أي وهو ما يترتب عليه الثواب واكتفى بالقول عن الفعل (غفر له خطاياه) أي الصغائر ويحتمل الكبائر قاله علي القارىء

معارف الحدیث جلد 3-4/ 219

رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : “اے فرزند آدم ! تو دن کے ابتدائی حصے میں چار رکعتیں میرے لیے پڑھا کر میں دن کے آخری حصے تک تجھے کفایت کروں گا “۔

تشریح ….. اللہ کا جو بندہ رب کریم کے اس وعدہ پر یقین رکھتے ہوئے صبح یا اشراق یا چاشت کے وقت پورے اخلاص کے ساتھ چار رکعتیں اللہ تعالیٰ کے لیے پڑھے گا ، ان شاء اللہ اس حدیث قدسی کے مطابق وہ ضرور دیکھے گا کہ مالک الملک دن بھر کے اس کے مسائل کو کس طرح حل فرماتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں