جب تقدیر میں خودکشی کرنا لکھا ہے تو آخرت میں عذاب کیوں؟

سوال: ہر انسان کی تقدیر اللہ تعالیٰ نے خود لکھی ہے ۔ جو قسمت میں لکھا ہوگا وہی ہوگا،تو جب کوئی انسان خودکشی​ کرتا ہے تو اس کو آخرت میں عذاب کیوں ملتا ہے؟ اگرچہ قسمت میں اس قسم کی موت ہی لکھی ہو۔

سائل:بلال

فتویٰ نمبر:125

الجواب حامدةومصلية​:

خودکشی کرنےوالے کی قسمت میں اگرچہ ایسی ہی موت لکھی تھی لیکن یہ بھی اس کی تقدیر میں لکھا تھا کہ وہ اپنے ارادہ اور اختیار سے خودکشی جیسا سنگین جرم کرے گا اور اس کی سزا میں جھنم کا مستحق ہوگا ۔

انسان کےلیے اللہ پاک نے اچھائی اور برائی دونوں راستوں کی رہنمائی کردی اور یہ بھی بتادیا کہ نیکی کے کاموں سے اللہ پاک خوش ہوتے ہیں اور گناہ کے کاموں سے ناراض ۔اور انسان کو مجبور محض بھی نہیں بنایا نہ مختار کل ۔بلکہ کچھ اختیار اس کو دیا جسے استعمال کرکے وہ اپنی مرضی سے اچھے اور برے کام کو اختیار کرتا ہےاور اس کے بدلے جزا وسزا پاتا ہے ۔

قرآن کریم میں ارشادہے:(وَھَدَینَاہُ النَّجدَینِ) سورةالبلد:٢١. ترجمہ:(اورہم نے دکھادئیے اسے دونوں راستے)

“(اِنَّا ھَدَینَاہُ السَّبِیلَ اِمَّا شَاکِراً وَّاِمَّا کَفُوراً . سورة الدهر:٣)

ترجمہ:(ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکرگذاربنے خواہ ناشکرا)

“وَقُلِ الحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَن شَائَ فَلیُؤمِن وَّمَن شَائَ فَلیَکفُرْ . سورة الكهف:٢٩) ترجمہ:(اورکہہ دیجئے کہ یہ سراسربرحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے اب جوچاہے ایمان لائے اورجوچاہے کفرکرے)

“مَن عَمِلَ صَالِحاً فَلِنَفسِہ وَمَن أسَاء فَعَلَیھَا وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلعَبِیدِ.سورة حم السجده:٤٦)

ترجمہ:(جوشخص نیک کام کرے گاوہ اپنے نفع کیلئے اورجوبراکام کرے گااس کاوبال بھی اسی پرہے ،اورآپ کارب بندوں پرظلم کرنے والانہیں)

“لِیَجزِیَ الَّذِینَ أسَاؤوا بِمَاعَمِلُوا وَیَجزِیَ الَّذِینَ أحسَنُوا بِالحُسنی . سورة النجم:٣١) ترجمہ:(تاکہ ]اللہ تعالیٰ[برے عمل کرنے والوں کوان کے اعمال کابدلہ دے اورنیک کام کرنے والوں کواچھابدلہ عنایت فرمائے)

” عن أبي ہریرۃ قال: خرج علینا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر فغضب حتی احمر وجہہ حتی کأنما فقئ في وجنتیہ الرمان فقال: أبہذا أمرتم أم ہذا أرسلت إلیکم، إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر، عزمت علیکم أن لاتنازعوا فیہ۔ (ترمذي شریف، أبواب القدر، باب ما جاء من التشدید في الخوض في القدر النسخۃ الہندیۃ: ۲/۳۴، دار السلام رقم:۲۱۳۳)

“فإن قیل بعد تعمیم علم اﷲ تعالیٰ وإرادتہ الجبر لازم قطعًا لأنہما إما أن یتعلقا بوجود الفعل فیجب أو بعدمہ فیمتنع لا اختیار مع الوجوب والامتناع۔ قلنا: یعلم ویرید أن العبد یفعلہ أو یترکہ باختیارہ فلا إشکال فإن قیل فیکون فعلہ الاختیاري واجبًا أو ممتنعًا وہذا ینافي الاختیار، قلنا إنہ ممنوع فإن الوجوب بالاختیار محقق للإختیار لامناف لہ الخ۔ (شرح العقائد النسفیہ، مبحث الأفعال کلہا بخلق اﷲ تعالیٰ والدلیل علیہ، مکتبہ نعیمیہ دیوبند ص:۸۲)

 عن عبد اﷲ أبي ملیکۃ أنہ دخل علی عائشۃؓ فذکرلہا شیئًا من القدر، فقالت: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول: من تکلم في شیئ من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ ومن لم یتکلم فیہ لم یسئل عنہ۔ (ابن ماجہ شریف، المقدمۃ، باب في القدر، النسخۃ الہندیۃ ص:۹، دار السلام رقم:۸۴)

والقدر سر من أسرار اﷲ تعالیٰ خلق الخلق فجعلہم فرقتین فرقۃ خلقہم للنعیم فضلاً وفرقۃ للجحیم عدلاً سأل رجل عن علي بن أبي طالبؓ فقال: أخبرني عن القدر، قال: طریق مظلم لا تسلکہ، وأعاد السؤال، فقال: بحر عمیق لا تلجہ، فأعاد السؤال، فقال: سر اﷲ قد خفي علیک فلا تفتشہ۔

(مرقاۃ المفاتیح: کتاب ۱/ ۱۴۵,الإیمان، باب الإیمان بالقدر، مکتبہ امدادیہ ملتان )

” أصل القدر سر اﷲ في خلقہ، والنہي عن السؤال لما فعل؟”(شرح العقيده الطحاوي: ص/۲۴۹۔)

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب

اہلیہ مفتی فیصل احمد

صفہ آن لائن کورسز

۱۳ جمادی الاول۱۴۳۹ھ

30/1/2018

اپنا تبصرہ بھیجیں