کیا معراج جسمانی تھی یا منامی

سوال:معراج کب ہوئی؟

تنقیح : کیا آپ معراج کا مہینہ اور تاریخ معلوم کرنا چاہتی ہیں یا یہ معلوم کرنا چاہتی ہیں کہ معراج حالت منام میں ہوئی یا جسمانی ہوئی؟

جواب تنقیح : دونوں باتیں پوچھنا مقصود ہیں ۔۔

الجواب باسم ملہم بالصواب

1۔معراج کا سال، تاریخ اور مہینہ کون سا تھا؟اس سلسلے میں بہت سے اقوال ملتے ہیں،کسی ایک قول کو راجح قرار دینا مشکل ہے،البتہ اتنی بات طے ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے پیش آیا ہے۔مزید تفصیلات کے لیے کتبِ سیرت کا مطالعہ کیجیے۔

2…معراج سے متعلق جمہور صحابہ اور تابعین کی رائے اور راحج قول یہی ہے کہ یہ سفر بیداری کی حالت میں جسمانی ہوا ہے،یہی اہلِ سنت والجماعت کا موقف ہے۔

چنانچہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

’’جمہور اہلِ سنت و جماعت کا مذہب یہ ہے کہ معراج بیداری میں جسد کے ساتھ ہوئی اور دلیل اس کی اجماع ہے۔‘‘

(نشر الطیب 80 مطبوعہ سہارنپور)

حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :

“حضور ﷺاپنے جسم ِ مبارک کے ساتھ معراج میں تشریف لے گئے تھے ،اس لیے  آپ کی معراج جسمانی تھی ۔ ہاں اس جسمانی معراج کے علاوہ چند مرتبہ حضور ﷺکو خواب میں بھی معراج ہوئی ہے وہ منامی معراجیں کہلاتی ہیں؛ کیوں کہ “منام” خواب کو کہتے ہیں، لیکن حضور ﷺ کا خواب اور اسی طرح تمام انبیاء  علیہم السلام کے خواب سچے ہوتے ہیں، ان میں غلطی اور خطا کا شُبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس حضورﷺکی ایک معراج تو جسمانی معراج تھی اور چار یا پانچ معراجیں منامی تھیں “۔

(تعلیم الاسلام)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتےہیں:

“قرآنِ مجید کے ارشادات اور احادیثِ متواترہ سے جن کا ذکر آگے آتا ہے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں تھا، بلکہ جسمانی تھا، جیسے عام انسان سفر کرتے ہیں قرآنِ کریم کے پہلے ہی لفظ سُبْحٰنَ میں اس طرف اشارہ موجود ہے؛ کیوں کہ یہ لفظ تعجب اور کسی عظیم الشان امر کے لیے استعمال ہوتا ہے، اگر معراج صرف روحانی بطورِ خواب کے ہوتی تو اس میں کون سی عجیب بات ہے! خواب تو ہر مسلمان، بلکہ ہر انسان دیکھ سکتا ہے کہ میں آسمان پر گیا، فلاں فلاں کام کیے۔

دوسرا اشارہ لفظ “عَبْد” سے اسی طرف ہے؛ کیوں کہ عَبْد صرف روح نہیں، بلکہ جسم و روح کے مجموعہ کا نام ہے۔۔۔”  

(معارف القرآن 5/438)

علا مہ سہیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

’’مہلب نے شرح بخاری میں اہلِ علم کی ایک جماعت کا قول نقل کیا ہے کہ معراج دو مرتبہ ہوئی، ایک مرتبہ خواب میں، دوسری مرتبہ بیداری میں جسد شریف کے ساتھ۔‘‘

( الروض الانف شرح سیرت ابن ہشام 234/1))

 ان تمام حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ جن حضرات خواب والا موقف اختیار کیا ہے، انھوں نے پہلے واقعہ کے بارے میں کہا ہے، ورنہ دوسرا واقعہ جو قرآنِ کریم اور احادیثِ متواترہ میں مذکور ہے، وہ بلاشبہ بیداری کا واقعہ ہے اور جسمانی طور پر ہوا ہے، یہی اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔

__________

حواله جات :

قرآن کریم سے :

1…سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔۔

( سورہ بنی اسرائیل : پارہ 15 ،1)

ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام سے مسجد اقصی تک جس کے گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بےشک وہ سنتا دیکھتا ہے ۔۔

2…وهوبالافق الاعلى .ثم دنا فتدلى..فكان قاب قوسين او ادنى.

(النجم: ، 7،8,9)

ترجمہ: اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے ۔پھر قریب ہوۓ۔اور ہو ۓ اور آگے ہوۓ پھر دو کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم۔

احادیث مبارکہ سے:

1…عَنْ مَالِکِ بْنِ صَعْصَعَۃَ ؓ اَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ﷺ حَدَّثَھُمْ عَنْ لَـیْلَۃٍ اُسْرِیَ بِہٖ : بَیْنَمَا اَنَا فِی الْحَطِیْمِ – ورُبَّمَا قَالَ فِی الْحِجْرِ – مُضْطَجِعًا اِذْ اَتَانِیْ . فَشَقَّ مَابَیْنَ ھٰذِہٖ اِلٰی ھٰذِہٖ (مِنْ ثُغْرَۃِ نَحْرِہٖ اِلٰی شِعْرَتِہٖ) فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِیْ  ثُمّ اُتِیْتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَھَبٍ مَمْلُوْئَۃٍ اِیْمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِیْ  وفی روایۃٍ: ثُمَّ غُسِلَ الْبَطْنُ بِمَائِ زَمْزَمََ ثُمَّ مُلِیَٔ اِیْمَانًا وَحِکْمَۃً ثُمَّ اُتِیْتُ بِدَابَّۃٍ‘ دُوْنَ البَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ‘ اَبْیَضَ‘ یُقَالُ لَـہُ الْبُرَاقُ . یَضَعُ خَطْوَہٗ عِنْدَ اَقْصٰی طَرْفِہٖ ’’استحُمِلْتُ عَلَیْہِ. فَانْطَلَقَ بِیْ جِبْرِیْلُ’ 

صحیح بخاری1 / 568)

ترجمہ۔۔۔۔چنانچہ آپ نے سفر کی تیاری شروع کی۔ اس موقع پر حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آپ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔پھر میرے سامنے ایک چوپایہ لایا گیاجو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا‘ وہ بالکل سفید تھا‘ اس کا نام ُبراق ہےاس کا ہر قدم‘ اس کی حد ِنگاہ تک پڑتا تھا پس مجھے اس پر سوار کیا گیااور جبرائیل ؑمیرے ساتھ چلے۔۔. یہاں تک کہ وہ آسمانِ دنیا تک پہنچ گئے۔

2….عن انس بن مالك قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اتيت فانطلقوا بي الى زمزم ، فشرح عن صدري ، ثم غسل بماء زمزم ثم انزلت..

(صحيح المسلم .418/1.كتاب الايمان، باب الاسراء برسول الله صلى الله عليه وسلم ، حديث 412 )

ترجمہ۔… حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آۓ اور مجھے زمزم کے پاس لے کر گئے پھر سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔

3….. عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُنَا عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ جَاءَهُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ أَوَّلُهُمْ أَيُّهُمْ هُوَ فَقَالَ أَوْسَطُهُمْ هُوَ خَيْرُهُمْ وَقَالَ آخِرُهُمْ خُذُوا خَيْرَهُمْ فَكَانَتْ تِلْكَ فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى جَاءُوا لَيْلَةً أُخْرَى فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمَةٌ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ وَكَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ فَتَوَلَّاهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ

(صحیح بخاری ۔۔حدیث نمبر 3570..کتاب المناقب ۔بَابُ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ تَنَامُ عَيْنُهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ)۔

ترجمہ :  شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے روایت کیا انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا وہ مسجد حرام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کا واقعہ بیان کررہے تھے کہ ( معراج سے پہلے ) تین فرشتے آئے ۔ یہ آپ پر وحی نازل ہونے سے بھی پہلے کا واقعہ ہے ۔ اس وقت آپ مسجد حرام میں ( دو آدمیوں حضرت حمزہ اور جعفر بن ابی طالب کے درمیان ) سورہے تھے ۔ ایک فرشتے نے پوچھا : وہ کون ہیں ؟ ( جن کولے جانے کا حکم ہے ) دوسرے نے کہا کہ وہ درمیان والے ہیں ۔ وہی سب سے بہتر ہیں ۔ تیسرے نے کہا کہ پھر جوسب سے بہتر ہیں انہیں ساتھ لے چلو ۔ اس رات صرف اتنا ہی واقعہ ہو کر رہ گیا ۔ پھر آپ نے انہیں نہیں دیکھا ۔ لیکن فرشتے ایک اور رات میں آئے ۔ آپ دل کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ کی آنکھیں سوتی تھیں پردل نہیں سوتا تھا ، اور تمام انبیاء کی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ جب ان کی آنکھیں سوتی ہیں تو دل اس وقت بھی بیدار ہوتا ہے ۔ غرض کہ پھر جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اپنے ساتھ لیا اور آسمان پر چڑھا لے گئے ۔

کتب فقہ سے:

1….فُرِضَتْ فِي الْإِسْرَاءِ لَيْلَةَ السَّبْتِ سَابِعَ عَشَرَ رَمَضَانَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ بِسَنَةٍ وَنِصْفٍ، وَكَانَتْ قَبْلَهُ صَلَاتَيْنِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا شُمُنِّيٌّ. 

(فتاوی شامیہ ..6/2)

2….قَوْلُهُ: فُرِضَتْ فِي الْإِسْرَاءِ إلَخْ) نَقَلَهُ أَيْضًا الشَّيْخُ إسْمَاعِيلُ فِي الْأَحْكَامِ شَرْحُ دُرَرِ الْحُكَّامِ، ثُمَّ قَالَ: وَحَاصِلُ مَا ذَكَرَهُ الشَّيْخُ مُحَمَّدُ الْبَكْرِيُّ نَفَعَنَا اللَّهُ تَعَالَى بِبَرَكَاتِهِ فِي الرَّوْضَةِ الزَّهْرَاءِ أَنَّهُمْ اخْتَلَفُوا فِي أَيِّ سَنَةٍ كَانَ الْإِسْرَاءُ بَعْدَ اتِّفَاقِهِمْ عَلَى أَنَّهُ كَانَ بَعْدَ الْبَعْثَةِ. فَجَزَمَ جَمْعٌ بِأَنَّهُ كَانَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ بِسَنَةٍ، وَنَقَلَ ابْنُ حَزْمٍ الْإِجْمَاعَ عَلَيْهِ، وَقِيلَ بِخَمْسِ سِنِينَ، ثُمَّ اخْتَلَفُوا فِي أَيِّ الشُّهُورِ كَانَ؟ فَجَزَمَ ابْنُ الْأَثِيرِ وَالنَّوَوِيُّ فِي فَتَاوِيهِ بِأَنَّهُ كَانَ فِي رَبِيعٍ الْأَوَّلِ. قَالَ النَّوَوِيُّ: لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَقِيلَ فِي رَبِيعِ الْآخَرِ، وَقِيلَ فِي رَجَبٍ وَجَزَمَ بِهِ النَّوَوِيُّ فِي الرَّوْضَةِ تَبَعًا لِلرَّافِعِيِّ، وَقِيلَ فِي شَوَّالٍ. وَجَزَمَ الْحَافِظُ عَبْدُ الْغَنِيِّ الْمَقْدِسِيَّ فِي سِيرَتِهِ بِأَنَّهُ لَيْلَةَ السَّابِعِ وَالْعِشْرِينَ مِنْ رَجَبٍ، وَعَلَيْهِ عَمَلُ أَهْلِ الْأَمْصَارِ. اهـ.

( فتاوی شامیہ 6/2)

3…حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی، یاقوت کا کمر بند باندھا۔

(معارج النبوة،: 601)

4….حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: سینہ سرخ یاقوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پشت پر بجلی کوندتی تھی، ٹانگیں سبز زمرد، دُم مرجان، سر اور اس کی گردن یاقوت سے بنائی گئی تھی۔ بہشتی زین اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یاقوت کے دور کاب آویزاں تھے۔ اس کی پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔۔۔چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رکاب تھام لی۔ حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین کو سنبھالا۔ حضرت امام کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معراج کی رات اسی ہزار فرشتے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف اور اسی ہزار بائیں طرف تھے۔

(معارج النبوة، ص606)

والله اعلم بالصواب

15دسمبر 2021

10 جمادی الاول 1442

اپنا تبصرہ بھیجیں