کرائے میں سالانہ اضافے کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

اگر کوئ شخص اپنی کچھ دکانیں کراۓ پر دے اور کرایہ دار کے ساتھ ایگریمنٹ ہو کہ ہر سال کراۓ میں %10اضافہ ہوگا تو کیا اس میں کوئی حرج ہے؟جواب عنایت فرمادیں ۔

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

واضح رہے کہ شرعی اعتبار سے اجارے جیسے معاملات میں پیشگی رقم،کرایہ اور سالانہ اضافے کی مقدار مقرر کرنے کا تعلق فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے ۔چنانچہ اگر معاہدے کے وقت دونوں فریق راضی ہیں توکرائے پر سالانہ 10٪ کا اضافہ کرنا جائز ہے ،کوئی حرج نہیں ۔تاہم مالک کو مفاد عامہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے مقدار اتنی زیادہ بھی مقرر نہیں کرنی چاہیے جو کرائے دار کے لیے ادا کرنا دشوار ہو،بلکہ عرف کو مد نظر رکھتے اضافہ کرے؛کیونکہ مؤمن ہر معاملے میں اپنے مسلمان بھائی کی بھلائی اور خیر خواہی چاہتا ہے۔

حوالہ جات:

(1)حضرت جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’بایعتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی إِقامِ الصلوۃ وایتاء الزکوۃ والنصحِ لکُلّ مسلم۔‘‘ ( مشکوۃ المصابیح،کتاب الآداب، باب الرحمۃ والشفقۃ علی الخلق، 423، ط؛قدیمی)

ترجمہ: ’’میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پربیعت کی کہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھوں گا، زکوٰۃ ادا کروں گا، اور ہر مسلمان کے حق میں خیرخواہی کروں گا۔‘‘

(2) حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:

’’أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: الدین النصیحۃ ، قلنا لمن؟ قال : لِلّٰہ ولکتابہٖ ولرسولہٖ ولأئمۃ المسلمین وعامتہم۔‘‘ (صحیح مسلم، باب الدین النصیحۃ، 1/54،ط:قدیمی)

ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیرخواہی کانام ہے (یعنی نصیحت اور خیر خواہی اعمالِ دین میں سے افضل ترین عمل ہے) ہم نے ( یعنی صحابہؓ نے) پوچھا کہ یہ نصیحت اور خیر خواہی کس کے حق میں کرنی چاہیے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ کے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، اللہ کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے۔‘‘

(3)وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.وحكمها وقوع الملك في البدلين ساعة فساعة( الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 5)

(4) الثابت بالعرف کالثابت بالنص۔ (الأشباہ والنظائر/ 156)

فقط واللہ اعلم بالصواب

8/دسمبر/2021

۳/جمادی الاولیٰ/۱۴۴۳ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں