کسی کی طرف سے خود ایصال ثواب کرنا

سوال:میں اپنے سسر کو ایصال ثواب کرتی ہوں تو کیا یہ ایصال ثواب اپنے شوہر کی جانب سے کر سکتی ہوں ؟ مطلب یہ کہ میں نے سورۃ بقرۃ پڑںھی یا سورہ اخلاص تین مرتبہ پڑھی اور اس کا ایصال ثواب اپنے شوہر کے نام سے کر دوں تو کیا ایسا کر سکتے ہیں یا ضروری ہے کہ جو پڑھے گا وہی ایصال ثواب کرے گا ؟

الجواب باسم ملھم بالصواب

بلاشبہ انسان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اس کے متعلقین کے لیے مستحب ہے کہ اپنے رشتے داروں و عزیزوں کے لیے حسبِ استطاعت ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام کرتے رہیں۔ یہ خود ان کے حق میں بھی ثواب کا باعث اور مُردوں کے حق میں مغفرت اور درجات کی بلندی کا سبب بنتا ہے،البتہ جو ایصالِ ثواب کرے گا تو مرحوم کو اسی کی طرف سے ثواب کا ہدیہ ملے گا ۔

لہذا اگر بیوی خود پڑھ کر شوہر کی طرف سے ایصالِ ثواب کرے تو بھی بیوی کی طرف سے ہی اس پڑھنے کا ثواب مرحوم کو پہنچے گا۔

————————————————-

حوالہ جات:

قرأن كريم سے :

رب اغفر لي ولوالدي ولمن دخل بيتي مومنا وللمؤمنين والمؤمنات..

( سورة نوح 28)

ترجمہ: اے رب بخش دے مجھے اور میرے والدین کو اور جو داخل ہو میرے گھر میں مومن مرد ہو یا عورت۔۔۔

احادیث مبارکہ سے۔۔۔

1…عن ابن عباس ان سعد بن عباده رضي الله تعالى عنه توفيت امه وهو غائب عنها فقال يا رسول الله ان امي توفيت وانا غائب عنها اينفعها شيء ان تصدقت به عنها : قال نعم ، قال فاني اشهدك ان حائطي المخراف صدقة عليها…

( صحيح البخاري ، باب اذا قال داري صدقه ، حديث 260 ، 1013/3)

ترجمہ : سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی کی والدہ فوت ہو گئیں اور وہ اس وقت ان کے پاس موجود نہیں تھے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے پاس نہیں تھا کیا میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا انہیں اس کا فائدہ ہو گا۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : ہاں ہو گا۔تو حضرت سعد نے فرمایا آپ گواہ رہیں میں نے یہ باغ اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کیا۔۔۔

2…”عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله ﷺ من حج عن والدیه بعد وفاتهما کتب له عتقاً من النار، وکان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غیر أن ینقص من أجور هما شیئاً”. ( شعب الإیمان ، 204/6 حدیث نمبر 7912 دارالکتب العلمیة، بیروت)

ترجمہ:   حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ:  جو شخص اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرتا ہے، تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے،  اور جن دونوں (والدین) کی طرف سے حج کیا گیا ہے انہیں کامل حج کا ثواب ملتاہے، نہ حج کرنے والے کی اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے اور نہ ہی جن کی طرف سے حج کیا گیا ہے ان کے اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے۔

3…عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده قال: قال رسول الله ﷺ لأبي: إذا أردت أن تتصدق صدقةً فاجعلها عن أبويك؛ فإنه یلحقهما أجرها ولاینتقص من أجرك شیئاً”.

( شعب الإیمان ، 204/6 حدیث نمبر 7911: دارالکتب العلمیة، بیروت)

ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جب تم صدقہ کرنا چاہو ، تو اپنے والدین کی طرف سے کرو؛ کیوں کہ اس کا ثواب ان کو ملتا ہے اور تمہارے اجر میں بھی کمی نہیں کی جاتی۔

4..وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إذا تصدق بصدقة تطوعاً أن یجعلها عن أبویه فیکون لهما أجرها، ولاینتقص من أجره شیئاً”. رواه الطبراني في الأوسط. وفیه خارجة بن مصعب الضبي وهو ضعیف”.

(مجمع الزوائد، باب الصدقة علی المیت:

138,139/3 حدیث نمبر 4769..دار الكتب العلمية بيرت)

ترجمہ: کوئی شخص نفلی صدقہ والدین کی طرف سے کرے تو  ان دونوں کو ثواب ملے گا، اور صدقہ کرنے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

کتب فقہ سے :

1…الافضل لمن يتصدق نفلا ان ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لانها تصل اليهم ولا ينقص من اجره شيء هو مذهب اهل السنة و الجماعة ( وفيه بعد اسطر) وفي البحر : من صام اؤ صلى او تصدق وجعل ثوابه لغيره من الاموات و الاحياء جاز ، و يصل ثوابها اليهم عند اهل السنة والجماعة …

( فتاوى شاميه : 243/2)

2…و يقرأ يس، وفي الحديث: «من قرأ الإخلاص أحد عشر مرةً ثمّ وهب أجرها للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات».

(قوله: و يقرأ يس) لما ورد: «من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ، وكان له بعدد من فيها حسنات» بحر. وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون و آية الكرسي – و آمن الرسول – و سورة يس و تبارك الملك و سورة التكاثر و الإخلاص اثني عشر مرةً أو إحدى عشر أو سبعًا أو ثلاثًا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. مطلب في القراءة للميت و إهداء ثوابها له [تنبيه]

صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم و لاينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة.”

( فتاوی شامیہ: 179,180/3)

3….واما عندنا فالواصل اليه نفس الثواب ، وفي البحر : من صام او صلى او تصدق و جعل ثوابه لغيره من الاموات و الاحياء جاز ، ويصل ثوابها اليهم عند اهل السنة و الجماعة

(فتاوى شاميه 180/3)

4…وقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: “لا یصوم أحد عن أحد ولا یصلی أحد عن أحد أی: فی حق الخروج عن العہدة لا فی حق الثواب فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات أو الأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنة والجماعة۔۔۔۔ وعلیہ عمل المسلمین من لدن رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – إلی یومنا ہذا من زیارة القبور وقرائة القرآن علیہا والتکفین والصدقات والصوم والصلاة وجعل ثوابہا للأموات، ولا امتناع فی العقل أیضا لأن إعطاء الثواب من اللہ تعالی إفضال منہ لا استحقاق علیہ، فلہ أن یتفضل علی من عمل لأجلہ بجعل الثواب لہ کما لہ أن یتفضل بإعطاء الثواب من غیر عمل رأسا۔

(بدائع الصنائع 254/2)

واللہ اعلم بالصواب

6نومبر 2021

1 ربیع الثانی 1442

اپنا تبصرہ بھیجیں