ماں سے نکاح کرلوں ۔ جملہ کہنے سے بیوی پر طلاق کا حکم

سوال ۔ میرے والد کی وفات کو 16سال ہوگٸے ہیں میری شادی کو 5سال ہوٸے ہیں ایک سال سے میری طبیعت ٹھیک نہیں مجھے فالج ہے ایک رات میری بیوی میرے پاس اتی ہے مجھے نیند سے جگاکر کہتی ہے کہ اپ کی امی کی دوسری شادی کردینی چاہیے میں نے کہا اب کیسے اتنے وقت کے بعد، پھر میں نے نیند میں سے اٹھ کر، ابھی بھی میں نیند کی کیفیت میں ہوں ۔میں نے ناسمجھی میں یہ بات اس طرح کہہ دی میری ابھی تین بہنیں باقی ہیں ان کی شادی کے بعد دیکھیں گے زیادہ اصرار پر میں نے یہ کہہ دیا: نکاح کی بات ہے ،میں کرلیتا ہوں نکاح اپنی امی سے ۔پھر میری بیوی ناراض ہوٸی اس بات سے مجھے سمجھایا تو میں نے اللہ اور اپنی بیوی سے معافی مانگی تھی اس بات کا ہمارے رشتے پر تو کوٸی اثر نہیں پڑے گا براہ مہربانی میری راہ نماٸی فرماٸیں میرا گھر ٹوٹنے کے قریب ہے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

کوٸی ہوش مند انسان اپنی ماں کے بارے میں یہ جانتے ہوئے ایسے بے ہودہ اور نازیبا کلمات کا استعمال نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالی نےعبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخی تو درکنار، انہیں “اُف” کہنا بھی پسند نہیں کیا۔جس ماں کے پیروں تلے جنت بتاٸی گٸی ہے اور اس کے احترام اور تعظیم کا حکم دیا گیا ہے اس کے بارے میں ایسے الفاظ کہنا سنگین جرم اور بدترین گناہ ہے ۔ سوال میں “مذکور الفاظ” اگرچہ ہوش و حواس میں نہیں کہے گٸے جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے، لہذا ان سے ایمان یا نکاح پر تو کوٸی اثر نہیں پڑے گا، البتہ اس شخص پر صدقِ دل سے نادم ہوکر توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور آئندہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے اجتناب کرنا لازم ہے تاکہ اللہ تعالی کی پکڑ اور عتاب میں نہ آجاٸے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات۔

1 . ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 23، 24]

ترجمہ: اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو، اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔ ( ازبیان القرآن)

2 ۔۔۔۔۔۔ عن ابي هريرة رضی اللہ تعالی عنہ ، قال: قال رجل: ” يا رسول الله، من احق الناس بحسن الصحبة؟ قال: امك، ثم امك، ثم امك، ثم ابوك، ثم ادناك ادناك “.

( الصحیح للمسلم ،حدیث نمبر: 6501)

ترجمہ ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ رشتہ داروں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ اس کے جواب میں حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری والدہ حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہیں، سائل نے پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری والدہ، اس نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری والدہ، سوال کرنے والے عرض کیا: پھر کون؟ فرمایا: تمہارے والد۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔

30دسمبر 2021

25جمادی الاولی

اپنا تبصرہ بھیجیں