مغرب کی نماز کا مکروہ وقت

سوال: 1: مغرب کی نماز کا مکروہ وقت اذان کے کتنی دیر بعد شروع ہوتا ہے۔ اور عشا کا مستحب وقت کب ہوتا ہے، ایک تہائی کے بعد یا ایک تہائی سے پہلے اور کیا 12 بجے کے بعد عشا کا وقت مکروہ ہو جاتا ہے۔؟

جواب: مغرب کا اصل وقت غروب آفتاب سے لے کر غروب شفق تک ہے۔ شفق سے شفق ابیض مراد ہے۔

مغرب کا مستحب وقت امام صاحب کے نزدیک یہ ہیکہ اذان کے فوراً بعد فوراً نماز پڑھ لی جائے۔ نہ جلسہ خفیفہ کیا جائے نہ نوافل پڑھے جائیں۔ صاحبین کے نزدیک جلسہ خفیفہ کے بعد مغرب پڑھنا مستحب ہے۔ مغرب میں تاخیر کے حوالے سے یہ تفصیل ہے کہ اگر جلسہ خفیفہ یا دو نفل کے برابر یعنی دو منٹ کی تاخیر کر لی جائے تو مباح ہے، اس سے زیادہ تاخیر مکروہ تنزیہی ہے اور ستاروں کے ظاہر ہونے کے بعد پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔

عشا کے اوقات کی تفصیل

عشا کا اصل وقت غروب شفق سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق تک رہتا ہے۔ عشاء کو ثلث لیل سے پڑھنا مستحب ہے، ثلث سے نصف لیل تک پڑھنا مباح ہے یعنی اتنی تاخیر گناہ ہے نہ ثواب۔ نصف لیل کے بعد پڑھنا مکروہ ہے۔ بارہ بجے کی کوئی تخصیص نہیں۔

▪️وأول وقت المغرب إذا غربت الشمس وآخر وقتہا ما لم یغب الشفق ثم الشفق ہو البیاض الذی فی الأفق بعد الحمرۃ۔ (ہدایہ ۱؍۸۱، مکتبہ بلال دیوبند ۱؍۷۸، درمختار زکریا ۲؍۱۷، درمختار بیروت ۲؍۱۷)

▪️ویستحب تعجیل المغرب لأن تأخیرہا مکروہ۔ (ہدایہ ۱؍۸۳، مکتبہ بلال دیوبند ۱؍۸۰، درمختار زکریا ۲؍۲۷)

▪️عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لولا أن أشق علی أمتي لأمرتہم أن یؤخروا العشاء إلی ثلث اللیل أو نصفہ۔ (سنن الترمذي، کتاب الصلاۃ / باب ما جاء في تاخیر العشاء الآخرۃ ۱؍۴۲ رقم: ۱۶۷)

▪️ابتداء وقت العشاء والوتر منہ أي من غروب الشفق إلی قبیل طلوع الصبح الصادق لإجماع السلف۔ (مراقي الفلاح ۹۵، درمختار مع الشامي ۲؍۱۸ زکریا، ۲؍۱۸-۱۷ بیروت، ہدایۃ ۱؍۸۲)

▪️ویستحب تاخیر العشاء إلی ما قبل ثلث اللیل و إلی نصف الأخیر مکروہ والتاخیر إلی نصف اللیل مباح۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۲۵ بیروت، ۲؍۲۶ زکریا، ہدایۃ ۱؍۸۳)

▪️إن التاخیر إلی نصف اللیل لیس بمستحب، وقالوا: إنہ مباح وإلی ما بعدہ مکروہ۔ (البحر الرائق ۱؍۲۴۸، شامي ۱؍۳۶۸ کراچی)

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں