مجہول پڑھنے والے شخص کی اقتدا میں نماز پڑھنا

سوال: مجہول پڑھنے والے شخص کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست ہے؟

جواب:واضح رہے کہ امام کا حق دار وہ شخص ہے جو متقی اور پرہیز گار ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو تجوید یعنی صحیح مخارج اور اعراب کی رعایت کے ساتھ پڑھنا جانتا ہو۔لیکن اگر ایسا امام میسر نہ ہو اور امام مجہول قراءت کرے تو دو باتوں کو دیکھا جائے گا:

۱- امام اگر قراءت کرتے وقت حروف میں ایسی تبدیلی کررہا ہے کہ جس سے معنی بالکل تبدیل ہوجاتے ہیں تو نماز فاسد ہوجائے گی۔

۲- اگر امام اعراب میں اس طرح کی غلطی کرے کہ لحنِ جلی کا ارتکاب لازم آجائے جیسے: “الحمدللہ رب العالمین” کی جگہ “ الحمدو (دال کو زیادہ کھینچ دیا)

لِلّٰھی(ھا کے زیر کو لمبا کردیا )

لم یُلَدْ (لم یُولَد میں واو کو ظاہر نہ کیا)

یا زبر، زیر ، پیش، جزم میں ایک دوسرے کی جگہ پڑھ دیا۔ جیسے:

اَنْعَمَتَ (اَنْعَمْتَ کی میم پر حرکت لگادی)

اَھْدِنَا (اِھْدِنَا کی ھ سے پہلے زبر پڑھ دیا)

تو یہ سب فحش غلطیاں ہیں ایسی غلطیوں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی مبتلا ہیں۔ ان سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ ایسی مجہول قراءت کرنے والے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست نہیں۔

البتہ اگر معنی میں فرق نہ پڑے اور حرف جان بوجھ کر تبدیل نہ کرے تو پھر نماز فاسد نہیں ہوگی۔تاہم ایسی مجہول قراءت کرنا قرآن پاک آداب کے خلاف ہے۔لہذا کسی اچھے قاری کو امام بنانا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

۱- وصل حرف من کلمة بحرف من کلمة اخری: ان وصل حرفا من کلمة بحرف من کلمة اخری نحو ان قرأ ایاک نعبد ووصل الکاف بالنون او غیر المغضوب علیہم ووصل الیاء بالعین…..الخ

إن ذکر حرفا مکان حرف ولم یغیر المعنی بان قرأ إن المسلمون اِن الظالمون وما أشبه ذلك ذلک لم تفسد صلاته، وإن غیر المعنی فان أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقة کالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مکان الصالحات تفسد صلاته عند الکل۔

(فتاوی ہند یہ: ج۱، ص۷۸)

۲- ولو زاد کلمة أو نقص کلمة أو نقص حرفا، او قدمہ او بدلہ بآخر نحو: من ثمرہ إذا أثمر واستحصد…..الخ لم تفسد مالم یتغیر المعنی

( فتاوی شامیہ: ج۲،ص۳۹۵-۳۹۶)

۳-جب کہ امداد الفتاوی میں اس مسئلے کے بارے میں یوں لکھا ہے “قصدا ایسا نہ کرے اور اگر بلا قصد بوجہ عدم مشق پڑھا گیا خواہ پھر کچھ ہی ادا ہو تو خود اس کی نماز ہوجائے گی لیکن صحیح خواہ کی امامت نہ کرے بلکہ صحیح خواہ جو مسائل ضروریہ سے واقف ہوں ہو، وہ احق بالامامت ہے۔”

واللہ اعلم بالصواب

۲۸-۳-۱۴۴۳ھ

۴-۱۱-۲۰۲۱ء

اپنا تبصرہ بھیجیں