مردوعورت کی نماز میں فرق

آپ نے سوال نمبر: 5924 کے جواب میں لکھا ہے کہ علامہ شامی نے مردوں اور عورتوں کی نماز میں چھبیس فرق بتائے ہیں۔ اگر آپ کو دقت نہ ہو تو وہ چھبیس فرق ہمیں لکھ بھیجیں یا پھر کتاب کانام بتادیں اوریہ بھی بتائیں کہ وہ کہاں ملے گی؟ آپ نے یہ بھی کہا کہ رفع یدین کا حکم اسلام کے شروع میں تھا۔ اگر اس حکم کو منسوخ کردیا گیا ہے توکیا اس کے بارے میں آپ کے پاس کوئی حدیث موجود ہے۔

مردوں اورعورتوں کی نماز میں جو فرق ہیں وہ درج ذیل ہیں:۔

۱- تکبیر تحریمہ کے وقت مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیںعورتیں صرف کندھوں تک۔

۲- مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں، اورعورت سینہ پر ہاتھ رکھے اس طرح کہ داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رکھ دے حلقہ نہ بنائے۔

۳- تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے وقت عورت اپنے ہاتھ کو نہ نکالے اور مرد کے لیے ہاتھ نکال کر تکبیر تحریمہ کہنا اولیٰ ہے۔

۴- مرد رکوع میں اتنا جھکے کہ سر پیٹھ اور سرین برابر ہوجائیں اور عورت تھوڑا سا جھکے یعنی صرف اس قدر کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں، پیٹھ سیدھی نہ کرے۔

۵- مرد گھٹنے پر انگلیاں کھلی رکھے اور ہاتھ پر زور دیتے ہوئے مضبوطی کے ساتھ گھٹنوں کو پکڑے اور عورت اپنی انگلیاں ملاکر گھٹنوں پر رکھ دے اور ہاتھ پر زور نہ دے اور پاوٴں قدرے جھکے ہوئے رکھے، مردوں کی طرح خوب سیدھی نہ کرے۔

۶- مرد رکوع میں اپنے بازوٴوں کو پہلو سے الگ رکھے اور کھل کر رکوع کرے اور عورت اپنے بازو کو پہلو سے خوب ملائے اور دونوں پاوٴں کے ٹخنے ملادیوے اور جتنا ہوسکے سکڑکر رکوع کرے۔

۷- عورتوں کو رکوع میں اپنے پاوٴں بالکل سیدھے نہ رکھنے چاہئیں بلکہ گھٹنوں کو آگے کی طرف ذرا سا خم دے کر کھڑا ہونا چاہیے۔

۸- مرد سجدہ کی حالت میں پیٹ کو رانوں سے بازو کو بغل سے جدا رکھے اور کہنیاں اور کلائی زمین سے علاحدہ رکھے اور عورتیں پیٹ رانوں سے اور بازوٴوں کو بغل سے ملا ہوا رکھیں اور کہنیاں اور کلائیاں زمین پر بچھاکر سجدہ کریں۔

۹- سجدے میں جاتے وقت مردوں کے لیے یہ طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ جب تک گھٹنے زمین پر نہ ٹکیں اس وقت تک وہ سینہ نہ جھکائیں لیکن عورتوں کے لیے یہ طریقہ نہیں ہے وہ شروع ہی سے سینہ جھکاکر سجدے میں جاسکتی ہیں۔

۱۰- مرد سجدہ میں دونوں پاوٴں کھڑے رکھ کر انگلیاں قبلہ رخ رکھے عورتیں پاوٴں کھڑا نہ کریں، بلکہ دونوں پاوٴں داہنی طرف نکال دیں اور خوب سمٹ کر سجدہ کریں اور دونوں ہاتھ کی انگلیاں ملاکر قبلہ رخ رکھیں۔

۱۱- مرد جلسہ و قعدہ میں اپنا داہنا پاوٴں کھڑا کرکے اس کی انگلیاں قبلہ رخ کرے اور بایاں پاوٴں بچھاکر اس پر بیٹھ جائے، دونوں ہاتھ زانوں پر اس طرح رکھے کہ انگلیاں قبلہ رخ رہیں، نیچے کی طرف نہ ہوجائیں اورعورتیں اپنے دونوں پاوٴں نکال کر بائیں سرین پر بیٹھیں۔

۱۲- مردوں کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ رکوع میں انگلیاں کھول کر رکھنے کا اہتمام کریں اور سجدے میں بند رکھنے کا اور نماز کے باقی افعال میں انھیں اپنی حالت پر چھوڑدیں نہ بند کرنے کا اہتمام کریں نہ کھولنے کا لیکن عورت کے لیے ہرحالت میں حکم یہ ہے کہ وہ انگلیوں کو بند رکھے  یعنی ان کے درمیان فاصلہ نہ چھوڑے رکوع میں بھی سجدے میں بھی، دو سجدوں کے درمیان بھی اور قعدوں میں بھی۔

۱۳- عورتوں کا جماعت کرنا مکروہ ہے ان کے لیے اکیلی نماز پڑھنا ہی بہتر ہے۔

۱۴- عورتوں کو نماز شروع کرنے سے پہلے اس بات کا اطمینان کرلینا چاہیے کہ ان کے چہرے ہاتھوں اور پاوٴں کے سوا تمام جسم کپڑے سے ڈھکا ہوا ہے۔

۱۵- عورتوں کے لیے کمرے میں نماز پڑھنا برآمدے سے افضل ہے اور برآمدے میں پڑھنا صحن سے افضل ہے۔ یہ مردوں اور عورتوں کی نماز میں اہم فرق تھے۔ علامہ شامی نے کچھ اور فرق بیان کیے ہیں جیسے:

۱۶- ان پر جمعہ نہیں ہے۔

۱۷- وہ مردوں کی امامت نہیں کرسکتیں۔

۱۸- جہری نمازوں میں بھی سراً قراء ت کرے گی۔

۱۹- عورت کے سامنے سے اگر کوئی گذرے تو تصفیق کرے گی، یعنی داہنی ہاتھ کی انگلی کی پشت سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر مارے گی وہ زبان سے تسبیح نہیں پڑھے گی۔

۲۰- اگر وہ جماعت کرنا ہی چاہیں تو ان کا امام ان کے بیچ میں کھڑا ہوگا۔

۲۱- عورتوں کا جماعت میں حاضر ہونا مکروہ ہے۔

۲۲- حاضر ہونے کی صورت میں اس کی صف مردوں کی صف سے پیچھے لگے لگی۔

۲۳- عورتوں پر عید نہیں ہے۔

۲۴- اور نہ ہی تکبیر تشریق ہے۔

۲۵- عورت کے لیے فجر کو اسفار (روشن کرکے) پڑھنا مستحب نہیں ہے۔

۲۶- عورت اگر جمعہ کی نماز مسجد میں جاکر ادا کرلے تو اس کی نماز صحیح ہوجائے گی۔

(۲) رفع یدین کے منسوخ ہونے کے سلسلے میں بہت سی روایات ہیں جن میں سے کچھ نقل کردیتا ہوں آپ کو اگر تفصیل درکار ہو تو مطالعہ؟غیرمقلدیت؟ موٴلف مفتی امین صفدر صاحب کا مطالعہ کریں۔

۱- عن عبد اللہ قال: ألا أخبرکم بصلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالگ فقام فرفع یدیہ أول مرة ثم لم یعد وفي نسخة ثم لم یرفع (نسائي شریف: ۱/۱۵۸)

۲- عن عبد اللہ بن مسعود قال: صلیت خلف النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر فلم یرفعوا أیدیھم إلا عند التکبیرة الأولی في افتتاح الصلاة (دارقطني) عن عبد اللہ بن عمر أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ إذا افتتح الصلاة ثم لایعود (رواہ البیہقي في الخلافیات)

امام مالک رحمہ اللہ جو مدینہ منورہ کے امام ہیں، فرماتے ہیں کہ: میں نے عمر بھر میں کسی کو نہیں پہچانا جو پہلی تکبیر کے بعد رفع یدین کرتا ہو۔ (المدونة الکبری: ۱/۷۱)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

اپنا تبصرہ بھیجیں