مسجد میں اجتماعی جہری ذکر کا اہتمام

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۸۷﴾

سوال:-        ہمارے یہاں ایک مفتی صاحب اذان فجرکے بعد سے جماعت کے 10/15 منٹ پہلے تک مسجد میں بتیاں بجھاکر باجماعت بہت بلند آواز سے ذکر کرتے ہیں۔ اور خود مفتی صاحب لاؤوڈ اسپیکر کے ذریعہ اس کا لیڈ دیتے ہیں، ہمیں بھی اس میں شریک ہونے کو کہاگیا، لیکن دوسرے بعض علماء کہتے ہیں کہ: یہ طریقہ صحیح نہیں، تو اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب :-       اجتماعی ذ کر کے حلقوں کا اہتمام  جائزعمل ہے، لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:

  1. ریا ونمود کا خوف نہ ہو۔
  2. اصرار والتزام نہ ہو، یعنی شرکت نہ کرنے والوں کو اصرار کرکے شرکت پر آمادہ نہ کیا جائے اور شریک نہ ہونے والوں پر طعن وتشنیع نہ کی جائے۔
  3. آواز شرکاءِ حلقہ تک ہی محدودو رکھی جائے،مسجد میں ذکر یا کوئی بھی ایسا عمل اتنی آواز سے کرنا جس سے دیگر نمازیوں یا اہل محلہ کو تشویش ہوتی ہو قطعا جائز نہیں ۔
  4. جہر کو مقصود نہ سمجھا جائے بلکہ علاج کے طور پر سمجھا جائے۔
  5. اس کو مسنون نہ سمجھا جائے۔
  6. بہتر ہے کہ مسجد میں نہ کیا جائے بلکہ گھر یا خانقاہ میں کیا جائے۔

اس لیے  صورت  مسئولہ میں مفتی صاحب کو حکمت کے ساتھ اور کسی قسم کا انتشار پیدا کیے بغیر مسئلہ بتادیں۔ اگر سائل خود باقاعدہ عالم ہے تو خود ہی حکمت کے ساتھ مسئلہ بتادے، اور اگر سائل باقاعدہ عالم نہیں ہے تو بہتر ہے کہ کسی ایسے عالم کے ذریعے مسئلہ کی طرف راہ نمائی کروائی جائے جو مذکورہ مفتی صاحب سے عمر یا مقام میں بڑے ہوں۔

الدر المختار (1 / 659)

ويحرم فيه السؤال، ويكره الإعطاء مطلقا، وقيل إن تخطى وإنشاد ضالة أو شعر إلا ما فيه ذكرورفع صوت بذكر إلا للمتفقهة والوضوء فيما أعد لذلك

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (1 / 660)

 اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارة قال: إنه حرام، وتارة قال إنه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو ” «وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر والإخفاء بالقراءة ولا يعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي» لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل لأنه أكثر عملا ولتعدي فائدته إلى السامعين، ويوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفكر، ويصرف سمعه إليه، ويطرد النوم، ويزيد النشاط. اهـ. ملخصا، وتمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں